Chalte Karobar Mein Per Piece Ke Hisab Se Nafa Tay Karne Ka Hukum

چلتے کاروبار میں فی پیس کے حساب سے نفع طے کرنے کا حکم اور اس کا متبادل جائز طریقہ

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0005

تاریخ اجراء:20شوال المكرم1444ھ/11مئی 2023ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کی ایک گارمنٹس فیکٹری (Garments Factory)ہے جس میں اس کا تقریباً دس ملین ریال (Ten million riyals) کا سرمایہ (Capital)لگا ہوا ہے۔ زید،بکر نامی انویسٹر (Investor) سے دولاکھ ریال بطور انویسٹمنٹ (Investment) لیتا ہے۔  دونوں کے درمیان نفع کے متعلق یہ طے ہوتا ہے کہ فیکٹری میں بننے والے ہر اوکے پیس(Perfect Piece)  پر بکر کو دو ریال نفع ملے گااور جو پیس (Piece)ریجیکٹ(Reject) ہوجائیں گے ان پر کچھ بھی نفع نہیں ملے گا جبکہ نقصان کے متعلق دونوں کے درمیان کچھ طے نہیں ہوا۔  یہ بھی  طے ہوا ہے کہ جب تک یہ انویسٹمنٹ(Investment) زید کے پاس رہے گی اسی طرح ڈیل چلتی رہے گی ۔   سال یا دو سال بعد جب بھی انویسٹر اپنی رقم کی واپسی کا تقاضا کرے گا، اسے وہ رقم یعنی دولاکھ ریال مکمل ادا کردیے جائیں گےاور طے شدہ منافع ملنا اسی وقت سے بند ہوجائے گا۔ کیا اس طرح ڈیل کرنا شرعاً درست ہے؟ا گر درست نہیں ہےتو اس کا کوئی جائز حل بھی ارشاد فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں ذکر کیا گیا طریقہ شراکت داری(Partnership) نہیں بلکہ سود پر مشتمل ہے کیونکہ بکر نے زید کو اگرچہ انویسٹمنٹ (Investment) کے نام پر رقم دی ہے لیکن درحقیقت (In fact) وہ رقم زید پر قرض ہے کہ مکمل رقم واپس کرنا طے ہوا ہے۔ اسی قرض کی وجہ سے زید، بکر کو  ہر پیس پر دو ریال کا نفع دے رہا ہے حالانکہ قرض پر مشروط(Conditional) نفع سود ہوتا ہے اور سود کا لین دین کرنا حرام و سخت گناہ ہے۔

   لہٰذا ان دونوں پر لازم ہے کہ فوراً اس سودی معاہدے(Interest based contract) کو ختم کریں  اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں۔ بکر  نے اب تک جو نفع لیا وہ اس کے لئے حلال نہیں  ، اس پر لازم ہے کہ وہ نفع بلانیتِ ثواب کسی شرعی فقیر کو صدقہ کردے بلکہ بہتر ہے کہ زید کو واپس کردے۔

   مذکورہ انویسٹمنٹ کا ایک جائز طریقہ

   اب اگر نئے سرے سے (Fresh)انویسٹمنٹ(Investment)  کرنا چاہتے ہیں تو اس کے مختلف  جائز طریقے ہوسکتے ہیں۔  ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بکر، زید کو رقم نہ دے بلکہ زید کو اپنے کام میں جو مٹیریل (Material)استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے مثلا دھاگہ وغیرہ ۔ بکر مارکیٹ سے  دولاکھ ریال  کا وہ سامان خرید کر اس پر قبضہ کرلے پھر اس سامان کو اپنا نفع (Profit) رکھ کر  مثلاً ڈھائی لاکھ ریال  کا زید کو ایک متعین مدت مثلا ً چھ ماہ  کے لئے ادھار پر بیچ دے۔ اب یہ سامان زید کی ملکیت ہوجائے گا اور جو بھی نفع حاصل ہوگا وہ سب زید کا ہی ہوگا البتہ جتنی قیمت میں اس نے بکر سے سامان خریدا ہے وہ رقم مثلاً ڈھائی لاکھ ریال  مقررہ مدت میں ادا کرنا زید پر لازم ہوگا۔  بکر کو جب یہ رقم وصول ہوجائے اور وہ دوبارہ رقم لگا کر نفع حاصل کرناچاہے تو پھر دوبارہ یہی طریقہ اختیار کرے۔ اس طریقے یعنی اصل قیمت مع نفع (Real Price with Profit) بتا کر بیچنے کو شرعی اصطلاح میں ’’بیع مرابحہ‘‘  (Murabaha Contract)کہا جاتا ہے۔ اگر ابھی پوری رقم وصول نہیں ہوئی بلکہ کچھ رقم وصول ہوئی ہے اور اس وصول شدہ رقم کو دوبارہ کاروبار میں لگانا چاہتا ہے تو اسی طریقے سے لگاسکتا ہے۔

   اگر بکر ہر مرتبہ کی خرید و فروخت خود نہیں کرنا چاہتا تو اس کا حل بھی موجود ہے کہ وہ اپنی جگہ کسی معتمد شخص کواپنا نائب (Deputy) بنادے جو اس  کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق ہرمرتبہ سامان خرید کر اپنے قبضے میں لے کر اوپر بیان کردہ طریقے  کے مطابق زید کو فروخت کردیاکرے۔

   قرض کی تعریف بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ’’شرعاً: ما تعطيه من مثلى لتتقاضاه ‘‘ یعنی : شرعا قرض وہ مثلی  چیز ہے جو اس مقصد سے دی کہ اس کی مثل کا تقاضا کیا جائے گا۔(درمختار،جلد5،صفحه161،مطبوعہ بیروت)

2

 
   فتح القدیر میں ہے : ” فعساہ لا یخرج الا قدرالمسمی فیکون اشتراط جمیع الربح لاحدھما علی ذلک التقدیر واشتراطہ لاحدھما یخرج العقد من الشرکۃ الی قرض او بضاعۃ “ترجمہ : ہوسکتا ہے کہ جتنا نفع ایک کے لئے مقرر کیا ہے کل نفع اتنا ہی ہو ، اس صورت میں یہ سارا نفع ایک شریک کے لئے مقرر کرنا ہوگا اور یہ عقد شرکت سے نکل کر قرض یا بضاعت میں چلا جائے گا۔(فتح القدیر، جلد6، صفحہ 183، مطبوعہ دار الفکر)

   قرض پر مشروط نفع  (Conditional Benefit)سود ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے:’’كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا ‘‘یعنی:ہر وہ قرض جس سے نفع حاصل کیا جائے وہ سود کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔(السنن الكبرى للبيهقى ،جلد5،صفحه 573،مطبوعه بيروت)

   سود کے متعلق صحیح مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:’’لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه‘‘، وقال:’’هم سواء‘‘یعنی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود کی تحریر لکھنے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا کہ یہ سب برابر ہیں۔(صحيح مسلم،جلد 3، صفحہ 1219، مطبوعه بيروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت،امام اہلسنت ،مولانا شاہ  امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن  سے ایک سوال ہوا جس میں یہ  الفاظ بھی موجود ہیں:”اس وقت زیدسےبکرنے کہا کہ اگر اس وقت پندرہ سو روپے دو تو میں لے لوں اور تجارت میں لگادوں اور چار سال میں اگر روپیہ ادا ہوا تو منافع لوں گا“تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا:”صورت مستفسرہ میں وہ منافع قطعی سود اور حرام ہیں حدیث میں ہے:”کل قرض جرمنفعۃ فھو ربا“ قرض سے جو نفع حاصل کیا جائے وہ سو دہے۔“(فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ 561،مطبوعہ رضا فاؤندیشن،لاہور)

   امام اہلسنت اعلیٰ حضرت رحمۃاللہ علیہ فتاوی رضویہ شریف میں سود اور دیگر مال حرام سے برئ الذمہ ہونے سے متعلق فرماتے ہیں : ”جو مال رشوت یاتغنی یاچوری سے حاصل کیا ، اس پرفرض ہے کہ جس جس سے لیا اُن پر واپس کردے، وہ نہ رہے ہوں اُن کے ورثہ کو دے، پتا نہ           چلے تو فقیروں پرتصدق کرے، خریدوفروخت کسی کام میں اُس مال کالگانا حرام قطعی ہے۔ بغیر صورتِ مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وبال سے سبکدوشی کانہیں۔ یہی حکم سود وغیرہ عقودِفاسدہ کاہے  فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جس سے لیا بالخصوص انہیں واپس کرنا فرض نہیں بلکہ اسے اختیار ہے کہ اسے واپس دے خواہ ابتداء تصدق کردے۔۔۔ ہاں جس سے لیا انہیں یا ان کے ورثہ کو دینا یہاں بھی اولیٰ ہے۔‘‘(فتاوى رضويه،جلد23، صفحہ551، مطبوعہ رضا فاؤنڈيشن لاهور)

   مرابحہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے صاحب ہدایہ امام ابو الحسن علی بن ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’المرابحة نقل ما ملكه بالعقد الأول بالثمن الأول مع زيادة ربح‘‘یعنی:پہلے عقد میں جتنے ثمن کے بدلے مال کا مالک ہوا ، اس میں نفع کا اضافہ کر کے آگے منتقل کرنا  مرابحہ ہے ۔ ( الهداية ،جلد03،صفحه56،مطبوعہ بیروت)

   واضح رہے کہ مارکیٹ سے سامان خریدنے کے بعد  آگے بیچنے سے پہلے اس سامان پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ بہار شریعت میں ہے: ”مبیع اگر منقولات کی قسم سے ہے تو بائع کا اُس پر قبضہ ہونا ضرور ہے،  قبل قبضہ کے چیز بیچ دی بیع ناجائزہے۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحہ625،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)

   سودا اگر اُدھار ہو تو  قیمت  ادا کرنے  کی مدت  طے ہونا بھی  ضروری ہے۔ جیساکہ بہار شریعت میں ہے:”بیع میں کبھی ثمن حال ہوتا ہے یعنی فورا ً دینا اور کبھی مؤجل یعنی اُس کی ادا کے لیے کوئی میعاد معین ذکر کردی جائے ، کیونکہ میعاد معین نہ ہوگی تو جھگڑا ہوگا۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحہ626،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)

   وکیل بنانے سے متعلق بہار شریعت میں ہے:”وکالت کے یہ معنی ہیں کہ جو تصرف خود کرتا ،اُس میں دوسرے کو اپنے قائم مقام کر دینا۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحہ974،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم