Mushtarka Dukan Apne Shareek Ko Kiraye Per Dena Kaisa ?

مشترکہ دکان اپنے شریک کو کرایہ پر دینا کیسا ؟

مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغر عطّاری مدنی

تاریخ اجراء:     ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک خالی دکان دو بھائیوں کی مشترکہ ملکیت ہے اب ان میں سے ایک بھائی اس دکان میں کام شروع کرنا چاہتا ہے تو کیا وہ اپنے بھائی سے اس کا آدھا حصہ کرایہ پر لے سکتا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مشترکہ دکان جو کہ مشاع  یعنی غیر تقسیم شدہ اثاثے کے طور پر دو افراد کی ملکیت میں ہو  اگر دونوں شریک کسی تیسرے شخص کو کرایہ پر دیں اور کرایہ آپس میں ملکیت کے حساب سے تقسیم کرلیں تو اس میں کوئی  حرج نہیں اور کوئی فقہی پیچیدگی بھی نہیں ۔

   البتہ اگر کوئی ایک شریک  ایسی مشترکہ دکان میں اپنا حصہ کرایہ پر دینا چاہتا ہے تو چونکہ مشاع پراپرٹی ہے جس میں ایسا نہیں کہ بیچ میں دیوار کھڑی ہو کہ یہ حصہ اس کا اور دوسرا  حصہ  دوسرے کا ، لہٰذا اس صورت میں ایسی دکان اپنے شریک کو  کرایہ  پر دے سکتا ہے غیر شریک کو دینا جائز نہیں۔ پوچھی گئی صورت میں  چونکہ مشترکہ دکان اپنے شریک ہی کو کرایہ پر دی جارہی  ہے لہٰذا اس میں حرج نہیں۔

   علامہ شامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ” اجارۃ المشاع فانما جازت عندہ من الشریک دون غیرہ ، لان المستاجر لایتمکن من استیفاء ما اقتضاہ العقد الا بالمھایاۃ ، و ھذا المعنی لا یوجد فی الشریک۔ افادہ الاتقانی : ای :  لان الشریک ینتفع بہ بلا مھایاۃ فی المدۃ کلھا بحکم العقد وبالملک بخلاف غیرہ “  یعنی  امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک  مشترکہ چیز شریک کو کرایہ پر دینا جائز ہے ، غیر شریک کو  دینا جائز نہیں ، کیونکہ عقد اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس  چیز سے فائدہ اٹھایا جائے اور باری مقرر کئے بغیر مستاجر اس چیز سے فائدہ اٹھانے پر قادر نہیں جبکہ شریک کو کرایہ پر دینے میں یہ بات نہیں پائی جاتی کیونکہ شریک باری مقرر کئے بغیر پوری مدت اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے عقدِ اجارہ اور ملکیت ہونے کی وجہ سے ، بخلاف غیر شریک کے۔( ردالمحتار علی الدرالمختار ، 10 /  98 )

صدرُالشریعہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ” مشاع یعنی بغیر تقسیم چیز کو بیع کردیا جائے تو بیع صحیح ہے اور اس کا اجارہ اگر شریک کے ساتھ ہو تو جائز ہے ، اجنبی کے ساتھ ہو تو جائز نہیں۔“( بہارِ شریعت ، 3 / 73 )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم