Profit Ki Percentage Profit par tay ki jayegi ya capital par

نفع کی شرح فیصد ، نفع پر طے کی جائے گی یا سرمایہ پر؟

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ شَوَّالُ /ذوالقعدہ1442ھ جون2021

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ نفع کی شرح فیصد کاروبار سے حاصل ہونے والے نفع پر طے کی جائے گی یا سرمایہ کی رقم پر؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    کاروبار میں اخراجات نکال کر سرمایہ یعنی کیپٹل سے اوپر جو رقم بچے اسے نفع کہتے ہیں اور اخراجات نکال کر اگر کیپٹل سے بھی کمی ہو تو وہ نقصان کہلاتا ہے ۔

    مشترکہ کاروبار میں ایک یا زائد فریق جو کام کرتے ہیں ان کا اصل مقصود نفع کا حصول ہوتا ہے ۔ شرکت کا معاہدہ کرتے وقت فریقین ایک تناسب اور فیصد طے کرتے ہیں کہ نفع ہوا تو اس تناسب سے اس کو تقسیم کریں گے۔ لہٰذا نفع ہونے پر اسی طے شدہ فارمولے سے رقم تقسیم ہوگی۔ نفع کس کو کتنا فیصد ملے گا یہ مقرر کرنے میں فریقین بہت ساری چیزوں کو دیکھ کر اتفاق کرتے ہیں مثلاً کیپٹل کس کا زیادہ ہے یا کام کون کتنا کر رہا ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں۔ بس یہ ضروری ہے کہ جو کام نہیں کر رہا یعنی اس نے سرمایہ تو ملایا ہے لیکن سلیپنگ پارٹنر ہے وہ اپنے کیپٹل کے تناسب سے زیادہ نفع مقرر نہیں کر سکتا مثلاً اس فریق نے 30 فیصد رقم ملائی اور کام بھی نہیں کر رہا تو یہ پچاس فیصد نفع مقرر نہیں کر سکتا۔

    فتاویٰ عالمگیری میں ہے : لو کان المال منھما فی شرکۃ العنان والعمل علی احدھما۔ ۔ ۔ لو شرطا الربح للدافع اکثر من راس مالہ لم یصح الشرط “ یعنی : اگر اس طرح شرکت ہوئی کہ مال دونوں کا ہوگا لیکن کام ایک کرے گاتو کام نہ کرنے والے کے لئے اس کے سرمایہ سے زیادہ نفع کی شرط لگانا درست نہیں۔(فتاویٰ عالمگیری ، 2 / 320)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم