Udhar Mein Cheez Naqad Qeemat Se Mehengi Bechna Kaisa?

اُدھار میں چیز نقد قیمت سے مہنگی بیچنا کیسا؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Aqs 1532

تاریخ اجراء:14جمادی الثانی1440ھ/18فروری2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہماراگاڑیوں کے پارٹس وغیرہ بیچنے کا کاروبار ہے ۔ بعض اوقات گاہک ادھار خریدنا چاہتا ہے ، تو جو چیز ہم نقد ہزار روپے میں بیچتے ہیں ، ادھار میں وہی چیز پندرہ سو روپے کی بیچ سکتے ہیں ؟ اس میں کسی قسم کا سود وغیرہ تو نہیں ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں آپ نقد قیمت ہزار روپے والی چیز ادھار میں پندرہ سو روپے کی بیچ سکتے ہیں ، اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے ، بشرطیکہ ادھار کی مدت معین ہو اور یہ طے کرلیا جائے کہ یہ سودا نقد کیا جارہا ہے یا ادھار۔ نیز کوئی اور ناجائز شرط نہ لگائی جائے۔

نقد اور ادھار بیچنے کے متعلق کنز الدقائق میں ہے:” وصح بثمن حال وبأجل معلوم “ ترجمہ: نقد اور ادھار قیمت کے ساتھ خرید و فروخت درست ہے ، بشرطیکہ ادھار کی مدت معلوم ہو ۔

( کنزا لدقائق ، کتاب البیوع ، صفحہ 228 ، مطبوعہ کراچی )

نقد و ادھار میں سے کوئی صورت معین کیے بغیر بیچنے کے متعلق فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ” رجل باع على أنه بالنقد بكذا وبالنسيئة بكذا او الیٰ شھر بکذا و الیٰ شھرین بکذا لم يجز كذا في الخلاصة “ ترجمہ:کسی شخص نے اس طریقے سے کوئی چیز بیچی کہ نقد اتنے کی اور ادھار اتنے کی ہے یا ایک مہینے کی مدت تک اتنے کی اور دو مہینے کی مدت تک اتنے کی ہے ، تو یہ خرید و فروخت جائز نہیں ہے ۔ جیسا کہ خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے ۔

( الفتاویٰ الھندیہ ، کتاب البیوع ، الباب العاشر فی الشروط التی تفسد البیع ، جلد 3 ، صفحہ 146 ، مطبوعہ کراچی )

نقد و ادھار میں سے کوئی ایک صورت معین کرکے بیچنے کے متعلق فتح القدیر میں ہے: ” ان كون الثمن على تقدير النقد ألفا وعلى تقدير النسيئة ألفين ليس في معنى الربا “ ترجمہ:کسی چیز کی قیمت نقد کی صورت میں ایک ہزار اور ادھار کی صورت میں دو ہزار ہو ، تو یہ سود کی صورت نہیں ہے ۔

( فتح القدیر ، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد ، جلد 6 ، صفحہ 410 ، مطبوعہ کوئٹہ )

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال ہوا:” جب غلہ بازار میں نقدوں 16 سیر کا ہو ، تو قرضوں 15 یا 12 سیر کا بیچنا جائز ہے یا حرام یامکروہ؟“ تو جواباً آپ علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا:”یہ فعل اگر چہ نرخ بازار سے کیساہی تفاوت ہو حرام یا ناجائز نہیں کہ وہ مشتری پر جبر نہیں کرتا ، نہ اسے دھوکا دیتا ہے اور اپنے مال کاہر شخص کو اختیار ہے ۔ چا ہے کوڑی کی چیز ہزار روپیہ کودے۔ مشتری کو غرض ہو، لے۔ ( غرض )نہ ہو ، نہ لے فی ردالمحتار:” لوباع کاغذۃ بالف یجوز ولایکرہ “ (ترجمہ:)ردالمحتار میں ہے:اگر کسی نے کاغذ کا ٹکڑا ہزار کے بدلے میں بیچا ، تو جائز ہے اور مکروہ نہیں ہے ۔ “

( فتاویٰ رضویہ ، جلد 17 ، صفحہ 97 ، 98 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

اسی طرح آپ علیہ الرحمۃ سے ایک اور سوال ہوا:” غلہ تجارتی کو ادھار میں موجودہ نرخ سے زیادہ قیمت پر بیع کرنا درست ہے کہ نہیں ؟“ تو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:” درست ہے ۔ “

( فتاویٰ رضویہ ، جلد 17 ، صفحہ 275 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فتاویٰ امجدیہ میں فرماتے ہیں:” بیع میں ثمن کا معین کرنا ضروری ہے ۔ در مختار میں ہے:و شرطہ لصحتہ معرفۃ قدر مبیع و ثمن اور جب ثمن معین کر دیا جائے ، تو بیع چاہے نقد ہو یا ادھار سب جائز ہے ۔ اسی میں ہے:و صح بثمن حال و مؤجل الی معلوم اور یہ بھی ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کو کم یا زیادہ ، جس قیمت پر مناسب جانے ، بیع کرے ۔ تھوڑا نفع لے یا زیادہ ، شرع سے اس کی ممانعت نہیں ، مگر صورت مسئولہ میں یہ ضرور ہے کہ نقد یا ادھار دونوں سے ایک صورت کو معین کر کے بیع کرے اور اگر معین نہ کیا ، یوہیں مجمل رکھا کہ نقد اتنے کو اور ادھار اتنے کو ، تو یہ بیع فاسد ہوگی اور ایسا کرنا ، جائز نہ ہوگا ۔ “

( فتاویٰ امجدیہ ، جلد 3 ، صفحہ 181 ، مکتبہ رضویہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم