Shirkat Mein Shart Fasid Hoto kya Hukum Hai ?

شرکت میں شرط فاسدہو تو کیا حکم ہے؟

مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Lar:6417

تاریخ اجراء:27جمادی الثانی 1438ھ/27 مارچ 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص(زید)اپنی بلڈنگ عمر اور ناصر کو دیتا  ہے اور  ان سے معاہدہ یہ کرتا ہے کہ تم اس میں سکول قائم کرو اور اخراجات تنخواہیں بل وغیرہ  نکالنے سے پہلےکل مال کا 40فیصد مجھے دینا ہو گا اور میں کام نہیں کروں گا اوراساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات بھی تم نے کرنے ہوں گے اورنفع نقصان میں تم دونوں برابر کے شریک ہو گے اخراجات نکالنے کے بعد جو بچے  وہ تم دونوں آپس میں برابر برابر تقسیم کر لینا ایسی صورت  میں کیا شراکت درست ہوگی ؟جبکہ زید کام نہیں کرے گا اور کل کمائی کا پہلے40فیصد اسے دیا جائے گا  پھر دیگر اخراجات نکالے جائیں گےاوراگر وہ بلڈنگ کا کرایہ نہ لینے کی صراحت کر دےاور وہ خود سے کام کی نفی نہ کرے اور کبھی کبھی پڑھا بھی لیا کرے اوراساتذہ کی حاضری  چیک کرنا نئے طلبہ کے داخلے کرنا وغیر ہ  کچھ کام بھی کر لیا کرے تو کیا حکم ہو گا  ؟اگر اس طرح بھی کرنا درست نہیں تو پھر اس کا جائز طریقہ کیا ہوگا ارشاد فرمادیں ۔

سائل:ناصر عطاری  (لاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     دریافت کی گئی صورت میں شرکت (Partnership)ناجائزو فاسد ہوگی اگران شرائط کے ساتھ شراکت کریں گے تو گناہ گار ہوں گے لہٰذا ان تمام شرکا پر لازم ہے کہ اس طرح شرکت کرنے سے احتراز کریں ۔

     تفصیل اس میں یہ ہے کہ اس معاہدہ  میں یہ طے کیا گیا ہے کہ زید   کی شراکت صرف بلڈنگ کے ساتھ ہوگی اور وہ کام نہیں کرے گااور یہ شرط فاسد ہے۔اور شرط فاسد سے شرکت فاسد ہو جاتی ہے۔اگروہ کام لینے اور کرنے پر شرکت کرے اور بلڈنگ کا کرایہ نہ لینے کی صراحت کر دے تو بھی یہ شرکت جائز نہیں ہوسکتی کیونکہ اس میں یہ طے کیا گیا ہےکہ  زید کو  اولا  کل مال کا 40فیصددینا ہوگا اخراجات سے  اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا اور یہ بھی شرطِ فاسد ہےجوشرکت کو فاسد کر دےگی کیونکہ یہ ایسی شرط ہے جو شرکت کو منقطع کرنے والی ہے کہ اگر اس نے پہلےہی اپنے لئے فکس مارجن نکال لیا توممکن  کہ  اخراجات نکالنے کے بعد دیگر شرکاکو کبھی کچھ بھی نہ ملے تو زید کی ان کے ساتھ نفع میں  شرکت تو نہ رہی  ۔

     اس کی جائز صورت یہ ہو سکتی ہے کہ زید اپنی بلڈنگ ان کو کرا ئے پر دے لے اور ماہانہ کرایہ طے کر دے مثلاماہانہ  04ہزار  روپے دیناہو گا  اس صورت میں ان کو نفع ہو یا نقصان، زید کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو گا ۔اور اگر زید کرایہ پر دینے کے لیے راضی نہ ہو اور شریک ہی بننا چاہے تو اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ زید  صراحت کر دے کہ وہ بلڈنگ کا کوئی عوض نہیں لے گا اوراس بات کی نفی نہ کرے کہ وہ کام نہیں کرے گا بلکہ تمام شرکا کام لینےاورکرنے کی ذمے داری کے ساتھ عقد شرکت کریں البتہ کام کرنے کے معاملے میں کمی بیشی کے ساتھ بھی معاہدہ کر سکتے ہیں یوں  ہی نفع میں بھی برابری شرط نہیں بلکہ جو کام کم کرے گا اس کے لئے زیاد نفع بھی طے کر سکتے ہیں لیکن اگر کسی وجہ سے اس مشترکہ کام پر  کوئی نقصان و تاوان وغیرہ دینا پڑا تو وہ اسی نفع کی نسبت سے ادا کرنا ہو گایعنی جس کے لئے جتنے فیصد نفع طے ہو ااسی فیصد کے اعتبار سے نقصان کی تلافی کرے گا۔

     یاد رہے کہ نفع میں شرکت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اولا اخراجات وغیر ہ نکالے جائیں گے پھر جونفع  ہوگا وہ طے شدہ فیصد کے مطابق تقسیم ہو گا لہٰذا جو جائز  صورت بیان کی گئی ہے اس میں اس کا لحاظ ضروری ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم