Shirkt Ke Karobar Mein Loss Kis Hisab Se Hoga ?

شراکت کے کاروبار میں دونوں شریکوں کا نقصان کتنے فیصد ہوگا؟

مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر: WAT-1414

تاریخ اجراء:       28رجب المرجب1444 ھ/20فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک نے  74500، دوسرے نے  51460  بطور شرکت دئیے، منافع میں 55 % اور  %45 کی شرط لگائی ،  اب تجارت میں نقصان ہوگیا  40000 ہزار روپے بچے ، نقصان میں کسی طرح کی شرط نہیں تھی ، اب مابقی کی تقسیم کس طرح ہوگی ؟ہر ایک کو کتنے روپے ملیں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آپ کی بیان کردہ صورت میں دونوں شریکوں کامال برابرنہیں ہے بلکہ کم وبیش ہے تواس میں نفع کی تقسیم کاری کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ:

   یاتوبرابربرابررکھاجائے یامال کے حساب سے اوراگرباہمی رضامندی سے کم وبیش رکھناہے توپھراگردونوں نے کام کرناہےتوزیادہ کام کرنے والے کے لیےزیادہ نفع مقررکیاجاسکتاہے ،کم کام کرنے والے کے لیے زیادہ نفع مقررنہیں کیاجاسکتا۔اوراگرصرف ایک نےکام کرناہے توکام کرنے والے کے لیے زیادہ نفع مقررکیاجاسکتاہے ،جس نےکام نہیں کرنا،اس کےلیےزیادہ نفع مقررنہیں کرسکتے ۔اگرکام نہ کرنے والے کے لیے زیادہ نفع مقررکیاتویہ شرکت ناجائزہے ۔

   اورنقصان کے حوالے سے قاعدہ یہ ہےکہ وہ دونوں کے مالوں کے اعتبارسے ہی ہوگا،اگراس کے خلاف مقررکیا ہوتواس کاکوئی اعتبارنہیں ،اسی طرح اگرنقصان کے حوالے سے کچھ طے نہیں ہواتھاتواس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گاکہ وہ پہلے ہی شریعت کی طرف سے طے ہے ۔لہذاصورت مسئولہ میں بھی جب مال کم وبیش ہے تونقصان اسی کے حساب سےہوگا۔پس صورت مسئولہ میں مال کاجوپرسنٹیج ہے ،وہ 59.15% اور40.85%ہے۔لہذا نقصان بھی اسی تناسب سے ہوگا۔

   بہارشریعت میں ہے " اگر دونوں نے اسطرح شرکت کی کہ مال دونوں کا ہوگا مگر کام فقط ایک ہی کریگا اور نفع دونوں لیں گے اور نفع کی تقسیم مال کے حساب سے ہوگی یا برابر لیں گے یا کام کرنے والے کو زیادہ ملے گاتو جائز ہے اور اگر کام نہ کرنے والے کو زیادہ ملے گا تو شرکت ناجائز۔ ۔ ۔۔ اور اگر کام دونوں کریں گے مگر ایک زیادہ کام کریگا دوسرا کم اور جو زیادہ کام کریگا نفع میں اُس کا حصہ زیادہ قرار پایا یا برابر قرار پایا یہ بھی جائز ہے ۔  "(بہارشریعت ،ج02،حصہ10،ص499، مکتبۃ المدینہ)

   بہارشریعت میں ہے " نقصان جو کچھ ہوگا وہ ر اس المال کے حساب سے ہوگا اسکے خلاف شرط کرنا باطل ہے مثلاً دونوں کے روپے برابر برابر ہیں اور شرط یہ کی کہ جو کچھ نقصان ہوگا اُسکی تہائی فلاں کے ذمہ اور دوتہائیاں فلاں کے ذمہ یہ شرط باطل ہے اور اس صورت میں دونوں کے ذمہ نقصان برابر ہوگا۔"(بہارشریعت ،ج02،حصہ10،ص491،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم