Ghair Mahram Ko Salam Karna Aur Salam Ka Jawab Dena

غیرمحرم کو سلام کر نا اور سلام کا جواب دینا

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2491

تاریخ اجراء: 06شعبان المعظم1445 ھ/17فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا غیرمحرم کو سلام کر سکتے ہیں نیز کیا اسکے سلام کا جواب دے سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   غیرمحرم جوان عورت کو سلام کرنا مرد کے لئے مکروہ وممنوع ہے ،ہاں بوڑھیوں کو کر سکتا ہے۔

   رہا سلام کے جواب دینے کا معاملہ ،تواگر  مرد بوڑھا ہےتو  عورت اسے بآواز جواب دے سکتی ہے،اگر  جوان  ہے تو  دل میں جواب دے۔

   اسی طرح  اگر کسی نامحرم عورت نے مرد کو سلام کیا،تو اگر وہ بوڑھی ہے تو مرد بلند آواز سے جواب دے سکتا ہے  اور جوان ہوتو دل میں جواب دے۔

   شعب الایمان للبیھقی میں ہے ”قال زر زر رجل من أهل مكة صالح، قلت لعطاء ااسلم على النساء ؟قال: إن كن شواب فلا “ترجمہ : اہل مکہ میں سے  زر زرنامی ایک نیک شخص نے کہا: میں نے عطاء سے پوچھا کیا میں عورتوں کو سلام کروں ؟ تو فرمایا : اگر وہ جوان ہیں تو نہیں  ۔(شعب الایمان للبیہقی ، ج 11، ص 256 ، مكتبة الرشد ، الریاض )

   رد المحتار علی الدر المختار میں ہے”وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل - عليها السلام - بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس “اور جب اجنبیہ عورت نے مرد کو سلام کیا تو اگر وہ بوڑھی ہو تو اس کے سلام کا جواب اتنی آواز سے دے جس کو وہ سن لے اور اگر جوان ہو تو دل میں جواب دے ،اسی طرح جب مردکسی نامحرم عورت کو سلام کرے  تو اس معاملہ میں جواب برعکس ہے۔(رد المحتار علی  الدر المختار،ج06،ص369،دار الفکر بیروت)

   در مختار میں ہے” سلامك مكروه على ... مصل وتال ذاكر ... كذا الأجنبيات الفتيات امنع “ ترجمہ: تمہارا سلام کرنا مکروہ ہے نمازی پر اور تلاوت کرنے والے پر، ذکر کرنے والے پر اسی طرح جوان اجنبیات کو سلام کرنے سے اپنے آپ کو روک۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے ”(قوله  الفتيات) جمع فتية: المرأة الشابة ومفهومه جوازه على العجوز، بل صرحوا  بجوازمصافحتها عند أمن الشهوة " ترجمہ: الفتيات ، فتیۃ کی جمع ہے، فتیۃ کا مطلب ہے جو ان عورت جس کا مفہوم یہ ہے کہ بوڑی کو سلام کرنا جائز ہے بلکہ انہوں نے شہوت کا خوف نہ ہونے کے وقت بوڑھی سے مصافحہ کے جواز کی تصریح کی ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، کتاب الصلوة، باب ما يفسد الصلوة وما يكره فيها ، ج 1 ، ص 617 ، دار الفکر، بیروت )

   فتاوی رضویہ میں ہے” اجنبیات میں جوانوں کو سلام نہ کیا جائے ، بوڑھیوں کو کیا جائے۔"(فتاوی رضویہ ، ج 22 ، ص 563، رضا فاؤنڈیشن، لاہور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم