Doston Aur Azizon Ka Salam Pahunchana Bhool Jayen Tu Kya Hukum Hai ?

لوگوں کا سلام پہنچانا بھول جائیں تو کیا حکم ہے؟

مجیب: فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-882

تاریخ اجراء: 02ذوا القعدۃالحرام1444 ھ/22مئی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   دعوتوں میں شریک ہوتے ہیں تو کئی دوستوں اور عزیزوں سے ملاقات ہوتی ہے، وہ پھرکسی کے بارے میں پوچھ لیتے ہیں  اور کہہ دیتے ہیں کہ اسے میرا سلام دیجئے گا۔ اکثر اوقات سلام پہنچانا یاد نہیں رہتا ،تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کسی کے سلام پہنچانے کا کہہ دینے سے سلام پہنچانااس وقت لازم ہوتاہے جب کہ سلام پہنچانے کاالتزام کیاہومثلاً یوں کہہ دیاہوکہ ٹھیک ہے میں تمہاراسلام پہنچادوں گا۔ اگرسلام پہنچانے کا  التزام نہیں کیاتو پہنچانا واجب نہیں ، لہٰذا آپ کو چاہئے کہ جب وہاں تک سلام نہیں پہنچا سکتےتو سلام پہنچانے کا التزام بھی نہ کریں ۔

   فتاوی ہندیہ میں ہے : ’’اذا امررجلا ان یقرا سلامہ علی فلان یجب علیہ ذلک  یعنی جب کسی شخص کو حکم دیاکہ فلاں کو میراسلام کہہ دینا اس پر سلام پہنچاناواجب ہے ۔(فتاوی ھندیہ ، جلد5،صفحہ326،مطبوعہ: پشاور)

    ردالمحتارمیں ہے : ’’(قولہ یجب علیہ ذلک )لانہ من ایصال الامانۃ لمستحقھاوالظاھران ھذا اذا رضی بتحملھاتامل ۔ ثم رایت فی شرح المناوی عن ابن حجر التحقیق ان الرسول ان التزمہ اشبہ الامانۃ والافودیعۃ ای فلایجب علیہ الذھاب لتبلیغہ  “ یعنی ان کاقول کہ اس پر سلام کا  پہنچانا واجب ہے اس لیے کہ یہ حقدار کواس کی امانت پہنچانا ہے  اور ظاہریہ ہے کہ سلام پہنچانااس وقت واجب ہے جب اس کے پہنچانے پر وہ راضی بھی ہواہو،تامل ۔ پھر میں نے شرح مناوی میں دیکھاابن حجر سے منقول ہے کہ تحقیق یہ ہے کہ قاصدسلام پہنچانے کا التزام کرے گاتو یہ امانت کے مشابہ ہوگا ورنہ ودیعت کے قبیل سے ہوگااوراس صورت میں سلام پہنچانے کے لیے جانااس پر واجب نہیں ہو گا۔(ردالمحتار،جلد9،صفحہ685،مطبوعہ :کوئٹہ )

   صدر الشریعہ،بدرالطریقہ،حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’ کسی سے کہہ دیا کہ فلاں کو میرا سلام کہہ دینا اوس پر سلام پہنچانا واجب ہے اور جب اس نے سلام پہنچایاتوجواب یوں دے کہ پہلے اس پہنچانے والے کو اس کے بعد اس کو جس نے سلام بھیجا ہے یعنی یہ کہے وَعَلَیْکَ وَعَلَیْہِ السَّلام۔یہ سلام پہنچانا اس وقت واجب ہے جب اس نے اس کا التزام کر لیا ہو یعنی کہدیا ہو کہ ہاں تمہارا سلام کہدوں گا کہ اس وقت یہ سلام اس کے پاس امانت ہے جو اس کا حقدار ہے اس کو دینا ہی ہو گا ورنہ یہ بمنزلہ ودیعت ہے کہ اس پر یہ لازم نہیں کہ سلام پہنچانے وہاں جائے ۔“ (بہار شریعت،جلد3،صفحہ463،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم