Salam Mein Pehal Karne Ka Zyada Sawab Hai Ya Jawab Dene Ka?

سلام میں پہل کرنے کا زیادہ ثواب ہے یا جواب دینے کا ؟

مجیب:محمد ساجد  عطاری

مصدق:مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Jtl-0682

تاریخ اجراء:12جمادی الاولی1444ھ/07د سمبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ سلام میں پہل کرنے کا ثواب زیادہ ہے یا  جواب دینےکا؟ کیونکہ سلام کرنا تو سنت ہے ،لیکن جواب دینا  واجب ہے ۔  اس اعتبار سے جواب دینا افضل ہونا چاہیے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حکم کے اعتبار سے اگرچہ یہی مسئلہ ہے کہ سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے، لیکن  ثواب اور درجے کے اعتبار سے افضل عمل پہلے سلام کرنا ہے ۔احادیث مبارکہ میں بالکل واضح انداز سے یہ بات بیان کی گئی ہے کہ سلام کرنے والے کوسلام کا  جواب دینے والے سے زیادہ ثواب ملتا ہے ۔ایک حدیث پاک کے مطابق سلام میں پہل کرنے والے کو ایک درجہ فضیلت حاصل ہوتی ہے اور دوسری حدیث کے مطابق اس کو دس نیکیوں سے فضیلت حاصل ہو جاتی ہے اور تیسری حدیث پاک کے مطابق سو(100) میں سے نوے (90) رحمتیں سلام میں پہل کرنے والے کو ملتی ہیں۔

   سلام کا جواب دینا اگرچہ واجب ہے اور سلام میں پہل کرنا سنت ہے، لیکن اس کے باوجود سلام میں پہل کرنے والا افضل کیوں ہے ؟ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جواب دینے والے پر جو سلام کا جواب واجب ہوا ، یہ سلام کرنے والے کے عمل کے سبب سے ہی ہوا ہے، تو گویا جواب دینے والے کو جو فضیلت حاصل ہوئی اس کا سبب بھی سلام کرنے والا ہی بنا ہے، اس لیے سلام میں پہل  کرنے والے کا ثواب زیادہ ہے ۔ اس کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی بیان کیا گیا کہ سلام کرنے والا سامنے والے پر پہلے احسان کرتا ہے  اور جواب دینے والا تو بعد میں جواب دے کر احسان کا بدلہ چکاتا ہے،اس لیے جو پہلے احسان کررہا ہے، وہی افضل ہے۔

   اب اس موضوع پر وارد ہونے والی احادیث اور فقہی جزئیات ملاحظہ فرمائیں:

   احادیث:

    (1)سنن ابو داؤد میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  إن أولى الناس بالله من بدأهم بالسلام“ترجمہ: بے شک لوگوں میں سے اللہ کے قریب تر وہ ہے، جو لوگوں سے  سلام  میں پہل کرے ۔( سنن أبي داود، جلد4، صفحہ 351، حدیث 5197، مکتبہ عصریہ ، بیروت)

   اسی حدیث کے مسند احمد اور المعجم کے الفاظ یوں ہیں :” من بدأ بالسلام، فهو أولى بالله ورسوله“ترجمہ: جو سلام میں پہل کرے، تو وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زیادہ قریب ہے۔ (المعجم الكبير ، جلد8، صفحہ 200، حدیث  7814، مطبوعہ القاهرہ)

    (2)صحیح ابن حبان اور مسند بزار میں  حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے  مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  ليسلم الراكب على الماشي، والماشي على القاعد، والماشيان أيهما بدأ فهو أفضل“ ترجمہ: جو شخص سوار ہے، اسے چاہیے کہ وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرے، اور جو چلنے والا ہے، اسے چاہیے کہ وہ بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور جو دو افراد چل رہے ہیں، تو ان میں سے جو ابتدا کرے گا وہی افضل ہے۔(صحيح ابن حبان، جلد2، صفحہ 251،حدیث  498،  مؤسسة الرسالہ، بيروت)

   مجمع الزوائد میں علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:” رواه البزار، ورجاله رجال الصحيح “ ترجمہ: اس حدیث  کو امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ، صحیح حدیث والے ہیں ۔( مجمع الزوائد، جلد8، صفحہ 36، حدیث 12761، مكتبة القدسي، القاهرہ)

    (3) شعب الایمان اور مکارم الاخلاق للخرائطی میں  حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ،والنظم للاول:رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن السلام اسم من أسماء اللہ تعالى، وضعه بينكم فأفشوه، فإذا سلم الرجل على القوم كان له عليهم فضل درجة لأنه ذكرهم السلام، فإن هم ردوا عليه وإلا رد عليه من هو خير منهم وأطيب “ترجمہ: بے شک ”سلام“ اللہ تعالی کے ناموں میں  سے ایک نام ہے ، اس نے یہ نام تمہارے درمیان  رکھ دیا ہے ،لہذاتم  اسے خوب عام کرو۔ پس جو شخص لوگوں کی جماعت  کو سلام کرے ،تو سلام کرنے والے کو ان لوگوں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے، کیونکہ اس نے ان کو سلام یاد کروایا ہے۔ پس اگر وہ لوگ اس سلام کرنے والے کو جواب دیں (توٹھیک )ورنہ  وہ جو ان سے  بہتر اور پاکیزہ ہیں، وہ اسے سلام کا جواب دیں گے۔ (شعب الإيمان، جلد11، صفحہ 200، حدیث 8403، مکتبة الرشد، الرياض)( مكارم الأخلاق للخرائطي، صفحہ 278، حدیث 859،  دار الآفاق العربيہ، القاهرہ)

    (4) عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی میں  اور کنز العمال میں ابن عدی کے حوالے سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  من سلم على قوم فضلهم بعشر حسنات“ترجمہ: جو شخص لوگوں کی جماعت کو سلام کرے، تو اسے ان لوگوں پر دس نیکیوں کی فضیلت حاصل ہوگی۔(عمل اليوم والليلة لابن السني، صفحہ175،حدیث 213،  دار القبلة للثقافة الإسلاميہ ، جدة / بيروت) ( كنز العمال، جلد9، صفحہ 117، حديث 25261، مؤسسة الرسالہ)

    (5) مسند بزار، الجامع الصغیر للسیوطی،المعجم للطبرابی اور شعب الایمان میں ہے، واللفظ للبزار،حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’إذا التقى الرجلان المسلمان فسلم أحدهما على صاحبه فإن أحبهما إلى اللہ أحسنهما بشرا بصاحبه، فإذا تصافحا نزلت عليهما مائة رحمة، للبادي منهما تسعون وللمصافح عشرة“ترجمہ :جب دو مسلمان ملتے ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے کو سلام کرتا ہے ، تو ان میں سے جو اپنے صاحب کے ساتھ زیادہ خوش روئی اور اچھے انداز سے پیش آتا ہے ، ان دونوں میں سے وہ اللہ کا زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ پھر جب وہ دونوں مصافحہ کرتے ہیں، تو اللہ تعالی ان پر سو (100) رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ ان میں سے نوے(90) اس کے لیے ہوتی ہیں، جو(سلام اور مصافحہ  میں ) ابتدا کرتا ہے اورجس سے  مصافحہ کیا گیا اس کے لیے دس (10) رحمتیں ہوتی ہیں۔( مسند البزار ،  جلد1، صفحہ 437، حدیث 308، مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورہ)( مجمع الزوائد، جلد8، صفحہ 37، حدیث 12767، مكتبة القدسي، القاهرہ)(شعب الإيمان، جلد11، صفحہ 291، حدیث 8557، مکتبة الرشد، الرياض)

    (6) شعب الایمان ، الجامع لاخلاق الراوی للخطیب وغیرہ میں  ہے،واللفظ للاول: نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:”البادئ بالسلام بريء من الكبر “ترجمہ: جو سلام میں پہل کرتا ہے، وہ تکبر سے بری ہوتا  ہے۔(شعب الإيمان، جلد11، صفحہ 202، حدیث8407، مکتبة الرشد، الرياض)( الجامع لأخلاق الراوي ، جلد1، صفحہ 397، حدیث 930، مكتبة المعارف، الرياض)

    (7) الادب المفرد، شعب الایمان  اور المعجم الکبیر وغیرہم  میں ہے، والنظم للادب المفرد:ایک شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  کے ساتھ کسی کام کے لیے بھیجا، تو وہ شخص بیان کرتے ہیں کہ :’’ فكل من لقينا سلموا علينا، فقال أبو بكر: ألا ترى الناس يبدأونك بالسلام فيكون لهم الأجر؟ ابدأهم بالسلام يكن لك الأجر “ترجمہ: جو بھی لوگ  ہمیں (راستے میں ) ملے،  توانہوں نے  ہمیں سلام کیا ۔ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ” کیا تم نہیں دیکھتے کہ لوگ تم سے سلام لینے میں پہل کر رہے ہیں ،تو (زیادہ)ثواب تو ان کو مل رہا ہے ۔ لہذا تم ان سے سلام لینے میں پہل کرو ،تاکہ  وہ ثواب تمہیں ملے۔(الأدب المفرد، صفحہ 341، حدیث 984، دار البشائر الإسلاميہ، بيروت)

   فقہی جزئیات:

   شرح السير الكبير ميں امام سرخسی لکھتے ہیں :” أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم  قال: «ما من رجل يسلم على قوم إلا فضلهم بعشر حسنات وإن ردوا. وفيه دليل على أن البداية بالسلام أفضل، وأن ثواب المبتدئ به أكثر، لأن الجواب يبتنى على السلام، والبادئ بالسلام هو المسبب للجواب، وهو البادئ بالإحسان، والراد يجازى إحسانه بالإحسان“ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جوبھی لوگوں کی جماعت کو سلام کرے ،تو وہ ان لوگوں پر دس نیکیوں سے فضیلت لے جاتا ہے ،اگرچہ وہ سلام کا جواب دیں۔ “ اس حدیث پاک میں دلیل ہے کہ سلام میں ابتدا کرنا افضل ہے اور یہ کہ سلام میں پہل کرنے والے کو زیادہ  ثواب ملتا ہے کیونکہ جواب کی بنیاد سلام کرنے پر ہی ہوتی ہے ، اور سلام میں پہل کرنے والا ہی اس کےجواب کا سبب بنتا ہے (یعنی اس کو سلام کا جواب دینے کا موقع ، سلام میں پہل کرنے والا ہی دیتا ہے)اور یہی احسان کرنے میں ابتدا کرنے والا ہے اورسلام کا  جواب دینے والا تو(جواب دے کر ) احسان کا بدلہ  احسان سے ادا کرتا ہے۔(شرح السير الكبير ،صفحہ141، الشركة الشرقية للإعلانات)

   فتاوی ہندیہ میں ہے: ”واختلفوا في أيهما أفضل أجرا قال بعضهم: الراد أفضل أجرا، وقال بعضهم: المسلم أفضل أجرا، كذا في المحيط“ترجمہ: فقہائے کرام کااس میں اختلاف ہے کہ سلام میں پہل کرنے والا افضل ہے یا جواب دینے والا۔ بعض نے کہا کہ جواب دینے والا  ثواب کے اعتبار سے افضل ہے اور بعض نے کہا کہ سلام میں پہل کرنے والا ثواب کے اعتبار سے افضل ہے۔ اسی طرح محیط میں ہے۔(الفتاوى الهنديہ، كتاب الكراهيہ، الباب السابع ، جلد05،صفحہ 324، دار الفكر، بيروت)

   مذکورہ عبارت کا جو یہ حصہ ہے کہ ” وقال بعضهم: المسلم أفضل أجرا “(اور بعض نے کہا کہ سلام میں پہل کرنے والا ثواب کے اعتبار سے افض ہے۔)اس پر حاشیہ میں امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں : ” وعليه الحديث “یعنی یہی بات حدیث میں بھی بیان ہوئی ہے (کہ سلام میں پہل کرنے والا افضل ہے۔) (التعليقات الرضويہ على الفتاوى الهنديہ، صفحہ679، مقولۃ 1659، مکتبۃ اشاعۃ الاسلام ، لاھور)

   مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں : ” مسلمان کو سلام کرنا سنت اور سلام کا جواب دینا فرض ہے ،مگر ثواب زیادہ ہے سلام کرنے کا یعنی اس سنت کا ثواب اس فرض سے زیادہ ہے، جیسے وقت پر قرض ادا کرنا فرض ہے اور وقت سے پہلے ادا کرنا سنت، مگر ثواب اس کا زیادہ ہے کہ وعدے سے پہلے اد اکرے یا جیسے محتاج مقروض کو ڈھیل دینا مہلت دینا فرض ہے،رب تعالیٰ فرماتاہے:” فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرةٍ “معاف کردینا سنت ہے مگر معاف کردینے کا ثواب زیادہ ہے، بہرحال بعض سنتوں کا ثواب بعض فرضوں سے زیادہ ہے۔“(مرآۃ المناجیح،جلد6، صفحہ228، قادری پبلشرز، لاھور )

   مذکورہ بالا احادیث اور فقہی جزئیات  و اقوال علماء سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سلام میں پہل کرنے والے کو زیادہ ثواب ملتا ہے اور سلام کرنا ، جواب دینے سے  افضل عمل ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم