مسجد کے چندے سے مسجد میں چراغاں کرنا کیسا؟

مجیب:مولانا شفیق مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-904

تاریخ اجراء:01ربیع الاول1438ھ/01دسمبر2016ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ کیا مسجد کے چندے سے مسجد میں چراغاں کرنے کے لیے لائٹیں خریدسکتے ہیں یا نہیں ؟خریدنے میں یہ آسانی ہے کہ کرائے پر لینے کی بنسبت آجکل بہت کم قیمت پر لائٹیں خریدی جاسکتی ہیں اور مختلف مواقع یعنی شب براءت اوررمضان المبارک میں بڑی راتوں میں چراغاں کرنے میں آسانی رہے گی ؟

سائل:محمد حسن عطاری (لائٹ ہاؤس،کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    مسجد کا چندہ مسجد کے مصارف معہودہ یعنی عمومی اخراجات جو مسجد میں کیے جاتے ہیں ،ان  کے لیے دیا جاتا ہے  مثلاً: تعمیرات،یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی ،امام و مؤذن ،خادمین کے وظائف اور صفائی ستھرائی میں ہونے والے اخراجات وغیرہ۔

    اسی چندے سے مسجد میں چراغاں کرنے کے بارے میں حکم یہ ہےکہ اگر چندہ دینے والوں کی صَراحۃ ًیا دَلالۃً اجازت ہو ، تو کرسکتے ہیں ورنہ نہیں ۔صَراحت سے مراد یہ ہے کہ مسجِد کے لیے چندہ لیتے وقت کہہ دیا کہ ہم آپ کے چندے سے جشنِ ولادت اور دیگر مبارک راتوں کے مواقع پرمسجِد میں روشنی بھی کریں گے اور اُس نے اجازت دے دی اور دلالت یہ ہے کہ چندہ دینے والے کو معلوم ہے کہ اِس مسجِد پر جشنِ ولادت اور دیگر بڑی راتوں کے مواقِع پر اور رمضان المبارک کی بڑی راتوں میں چَراغاں ہوتا ہے اور اُس میں مسجِد ہی کا چندہ استِعمال کیا جاتا ہے۔

    صراحۃ یا  دلالۃ اجازت ہونے کی صورت میں خرید کر ، یا کرایہ پر دونوں صورتوں میں اجازت ہے اور وہ صورت اختیار کی جائے ، جس سے مسجد کے لیے زیادہ نفع ہو ۔

    اور سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ اب الگ سےمسجد میں ربیع الاول کے ساتھ ساتھ مختلف مواقع پر چراغاں کرنے کے لیے  لائٹیں خریدنے کاچندہ کر لیں ،یا کسی مخیر سے کہیں وہ یہ لائٹیں لے کر مسجد کو دے دے ۔

    صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے فتاوی امجدیہ میں سوال ہوا کہ ’’اگر کوئی شخص بڑی رقم یا مکان وغیرہ یا چند لوگ چندہ کر کے ایک معقول رقم مسجد میں اس غرض سے دیں کہ اس رقم سے ختمِ تراویح کے موقع پر اور ربیع الاول میں بعد وعظ شیرینی تقسیم کی جاوے اور واعظ صاحب کو اور تراویح خواں حافظ صاحب کو کچھ رقم اس میں دی جائے اور رمضان المبارک کی ستائیسویں شب اور شب عیدین وغیرہ مبارک راتوں میں خوب روشنی کی جائے،تو شرعا یہ امور مذکورہ رقم سے کرنا درست ہے یا نہیں ؟“

    آپ نے جواب ارشاد فرمایا:”یہ امور مذکورہ جائز ہیں ، واعظ یا حافظ کی خدمت ایک پسندیدہ امر ہے ، یونہی بعد ختم تراویح یا بعد میلاد شریف شیرینی کا تقسیم کرنا بھی جائز ۔ مبارک راتوں میں جہاں کثرت روشنی کا رواج ہے ،تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ اس سے مقصود اظہار شوکت اسلام ہے اور عوام کے ذہنوں میں ان راتوں کی عظمت کا متمکن کرناہے ۔ جس طرح حرمین طیبین کی دونوں مسجدوں میں بکثرت روشنی ہوتی ہے اور فقہا بھی اسے جائز بتاتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ اگر کہیں دوسری جگہ بھی عادت ہو جائے ،تو جواز کا حکم ہو گا ، یوں ہی اگر دینے والا رات بھر مسجد میں چراغ جلانے کے لیے رقم دے ،تو رات بھر جلائیں گے ، وقت ضرورت تک ہی نہ رکھیں گے ۔ عالمگیری میں ہے :”ولا يجوز أن يترك فيه كل الليل إلا فی موضع جرت العادة فيه بذلك كمسجد بيت المقدس ومسجد النبي صلى اللہ عليه وسلم والمسجد الحرام أو شرط الواقف تركه فيه كل الليل كما جرت العادة به فی زماننا ، كذا في البحر الرائق،جن لوگوں نے رقوم یا مکان وغیرہ اس لیے دئیے کہ امور مذکورہ میں صرف ہوں ،تو ان کی رائے کے موافق صرف کریں ، ان کے علاوہ دوسرے امور میں وہ رقم صرف نہیں کی جاسکتی ۔ “

 (فتاوی امجدیہ ، جلد3، صفحہ 120-122، مکتبہ رضویہ ، کراچی )

    ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:’’جب عطیہ و چندہ پر آمدنی کا دارومدار ہے تو دینے والے جس مقصد کے لیے چندہ دیں یا کوئی اہل خیر جس مقصد کے متعلق اپنی جائیداد وقف کرے اسی مقصد میں وہ رقم یا  آمدنی صرف کی جاسکتی ہے ، دوسرے میں صرف کرنا ،جائز نہیں مثلا اگر مدرسہ کے لیے ہو، تو مدرسہ پر صر ف کی جائے اور مسجد کے لیے ہو، تو مسجد پر اور قبرستان کی حد بندی کے لیے ہو تو اس پر ، اور اگر دینے والے نے اس کا صرف کرنا متولیوں کی رائے پر رکھا ہو تو یہ اپنی رائے سے جس میں مناسب سمجھیں ، صرف کر سکتے ہیں ۔“

     (فتاوی امجدیہ ، جلد3، صفحہ 42، مکتبہ رضویہ ، کراچی )

    وقار الفتاوی میں سوال ہوا ”مسجد کی انتظامیہ نے الیکٹرک ڈیکوریشن کا سامان تیار کروایا جو کہ جھالریں اور دیگر اشیاء کی صورت میں ہے ، ڈیکوریشن کا یہ سامان تیار کرتے وقت نیت یہ تھی کہ یہ اشیاء مسجد کے لیے متبرک راتوں میں کام آئیں گی اور اس کے علاوہ مسجد کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بطور کرایہ جائز کاموں کے لیے، مثلا جلسہ ہائے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں دی جائیں گی ، آیا مسجد کی یہ جھالریں اور بورڈ وغیرہ جو کچھ بھی ہیں کرائے پر دینا جائز ہیں یا نہیں ؟“

جواب ارشاد فرمایا:”جن لوگوں نے مسجد کے مصارف کے لیے چندہ دیا تھا ،اس فنڈ سے یہ تمام چیزیں خریدنا،جائز نہیں تھیں ، خاص ان چیزوں کے لیے لوگوں سے چندہ لے کر اگر خریدی جائیں، تو سوال مذکور میں یہ تمام امور درست ہوتے۔“؎

     (وقار الفتاوی ، جلد2، صفحہ 327، بزم وقار الدین ، کراچی )

    امیر اہلسنت حضر ت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری ضیائی دامت برکاتہم العالیہ چندے کے بارے میں سوال جواب میں یوں لکھتے ہیں:’’سُوال:مسجِد کے چندے کی رقم سے مسجِد پر جشنِ ولادت کے دِنوں میں چَراغاں کرنا کیسا؟

    جواب: اگر چندہ دینے والوں کی صَراحۃ ًیا دَلالۃًاجازت ہو تو کرسکتے ہیں ورنہ نہیں ۔صَراحۃً سے مُراد یہ ہے کہ مسجِد کے لیے چندہ لیتے وقت کہہ دیا کہ ہم آپ کے چندے سے جشنِ ولادت اور گیارھویں شریف، شبِ براءَ ت وغیرہ بڑی راتوں کے مواقِع پرنیز رَمَضانُ المبارَک میں مسجِد میں روشنی بھی کریں گے اور اُس نے اجازت دےدی ۔ دَلَالۃً یہ ہے کہ چندہ دینے والے کو معلوم ہے کہ اِس مسجِد پر جشنِ ولادت اور دیگر بڑی راتوں کے مواقِع پر اور رَمَضانُ المبارَک میں چَراغاں ہوتا ہے اور اُس میں مسجِد ہی کا چندہ استِعمال کیا جاتا ہے۔ عافِیّت اِسی میں ہے کہ چَراغاں وغیرہ کے لیے الگ سے چندہ کیا جائے ،جتنا چندہ ہوجائے اُسی سے چَراغاں کر لیا جائے اور چَراغاں میں جو کچھ بجلی خرچ ہوئی اُس کے پیسے بھی اُسی سے ادا کیے جائیں۔‘‘

 ( چندے کے بارے میں سوال جواب ،صفحہ 20، مکتبۃ المدینہ ،کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم