دکاندار کا راہِ خدا کے لئے الگ کی ہوئی رقم استعمال کرنا کیسا؟

مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغر عطّاری مد ظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ  جمادی الآخر1442 ھ

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

       کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری دودھ دہی کی دکان ہے میں روزانہ  مسجد کے نام پر کچھ پیسے نکال کر الگ کرلیتا ہوں۔ اگر کبھی ضرورت پڑے تو کیا میں اس رقم کو اپنے استعمال میں لاسکتا ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

       مسجد میں دینے کی نیت سے رقم الگ کرلینے سے وہ رقم آپ  کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتی بلکہ جب تک وہ رقم مسجد میں نہ دے دی جائے آپ کی ملکیت میں ہی رہتی ہے لہٰذا اگر وہ رقم آپ نے کسی اور کام میں خرچ کردی تو گناہ نہیں۔  بعد میں اتنی ہی رقم مسجد میں دے دیں تو اچھی بات ہے اگر نہ دیں تب بھی کوئی گناہ نہیں لیکن بہتر یہی ہے کہ جب نیکی کا ارادہ کیا ہے تواس ارادے کو عملی جامہ پہنائیں۔

       اعلیٰ حضرت  علیہ الرَّحمہ  سے سوال ہوا کہ “ ایک شخص نے وقت شروع کرنے روزگار کے ، یہ خیال کرلیا کہ مجھ کو جو نفع ہوگا اس میں سولہواں حصہ واسطے اللہ کے نکالوں گا “ اس کے جواب میں اعلیٰ حضرت  علیہ الرَّحمہ  لکھتے ہیں : “ صرف خیال کرلینے سے وجوب تو نہیں ہوتا جب تک زبان سے نذر نہ کرے ، ہاں جو نیت اللہ عزوجل کے لئے کی اس کا پورا کرنا ہی چاہیے۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 13 / 594)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم