Agar Waqf Ki Koi Cheez Toot Jaye To Is Ka Kaffara Kya Hoga ?

اگر وقف کی کوئی چیز ٹوٹ جائے تو اس کا کفارہ کیا ہوگا ؟

مجیب:مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2733

تاریخ اجراء: 30شوال المکرم1445 ھ/09مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر وقف کی کوئی چیز ٹوٹ جائے تو اس کا کفارہ کیا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر وقف کی کسی چیز کو جان بوجھ کرنقصان پہنچایا جس سے وہ تلف(ضائع) ہوگئی تو اس کا تاوان بہر حال دینا ہوگا۔ یونہی جس تصرف کی اجازت نہیں تھی وہ تصرف کرنے سے وقف کی شے تلف ہوئی تو بھی تاوان لازم ہے۔

   اور اگر کوئی ایسا تصر ف کیا جس کی اسے اجازت تھی اور اس میں تقصیر ،کوتاہی اور بے احتیاطی نہ کی  پھر بھی تلف ہوگیا تو اب تاوان نہیں ، اور اگر بے احتیاطی یاکوتاہی کی تو پھر اس صورت میں بھی تاوان لازم ہوگا۔

   اورتاوان کامطلب یہ ہے کہ اگروہ چیزمثلی ہے یعنی بالکل اس جیسی چیزبازارمیں ملتی ہے تووہ چیزاپنی طرف سے خریدارکروقف کودینی ہوگی اوراگروہ چیزمثلی نہ ہویعنی بالکل اس جیسی چیزبازارمیں نہ ملتی ہوتوضائع ہونے کے وقت جس کنڈیشن میں وہ چیزتھی اس کی جومارکیٹ ویلیوبنتی ہے ،اتنی قیمت وقف کودیناہوگی ۔

   رد المحتار میں ہے” أن ضمان المثليات بالمثل لا بالقيمة والقيميات بالقيمة لا بالثمن“ترجمہ:مثلی اشیاء کا تاوان،مثل سے ہی ادا ہوگا،قیمت کے ساتھ نہیں اور قیمی اشیاء کا تاوان،قیمت کے ساتھ ہی ادا ہوگا،مثل کے ساتھ نہیں۔(رد المحتار علی الدر المختار،ج 4،ص 516،دار الفکر،بیروت)

   وقف کے شرعی مسائل میں ہے:”جو شخص بھی وقف کی عمارت کو جان بوجھ کر نقصان پہنچائے اس سے تاوان لیا جائے گا جیسے کسی نے  مسجد یا مدرسے کی دیوار گرادی یا مسجد یا مدرسے کی دیوار پر کوئی ایسی چیز رکھ دی جس کا  بوجھ برداشت نہ کرتے ہوئے دیوار گر گئی تو اس شخص سے اس کا پورا تاوان لیا جائے گا۔“(وقف کے شرعی مسائل ،ص65، مکتبہ اہل سنت)

   امام اہل سنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:” متولی وقف امین وقف ہے جبکہ اس طرح کا متولی ہو جو اوپر مذکور ہوا اگر اس سے اتفاقیہ طور پر بے اپنے تقصیر وبے احتیاطی کے وقف کی کتاب یا کوئی مال تلف ہوجائے اس کا معاوضہ نہیں،اور اگر قصدًا تلف کردے یا اگر اپنی بےاحتیاطی سے ضائع کرے تو ضرورمعاوضہ ہے،یہی حکم ملازمان وقف کا ہے جبکہ وہ تصرف جو اس نے کتاب میں کیا اس کی ملازمت میں داخل،اور اسے جائز تھا،ورنہ اگر وقف کے کسی اور صیغہ کا ملازم ہے کتب خانہ پر اس کو اختیار نہیں،اور اس نے مثلًا کتاب کسی کو عاریۃً دے دی اورضائع ہوگئی توضرور اس پرمعاوضہ ہے،غیر شخص نے اگر وہ تصرف کیا تو منجانب وقف جس کی اسے اجازت تھی اور بے اس کی تقصیر کے کتاب ضائع ہو گئی مثلا کتب خانہ وقف میں جاکر کتابیں دیکھنے کی اجازت ہو اور عام طور پر معمول ہو کہ کتابیں دیکھ کر اسی مکان میں رکھ آتے ہیں یا فلاں ملازم کو سپرد کردیتے ہیں اور یہ اس قاعدہ کو بجالایا اورکتاب گم ہوگئی تو اس پر بھی معاوضہ نہیں، ورنہ اگر وہ تصرف کیا جس کی اسے اجازت نہ تھی یا تھی مگر اس کی تقصیر وبے احتیاطی سے کتاب گئی تو ضرور تاوان دے گا،اور بہرحال معاوضہ اس کتاب کی قیمت یعنی بازار کے بھاؤ سے جو اس کے دام ہوں۔“(فتاوی رضویہ، ج16، ص227،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم