مالِ وِراثت میں اگر حرام و حلال مکس ہو تو کیا کریں؟

مجیب:  مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:    ماہنامہ فیضان مدینہ اپریل 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علماءِ دین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ ایک شخص کا انتقال ہوا، اس کے مال ِ وِراثَت میں حلا ل و حرام مِکس ہے ،یعنی سُوداور رشوت  وغیرہ کا روپیہ بھی اس میں شامل ہے ،کچھ رقم کا توعلم ہے کہ وہ فلاں شخص سے رشوت کے طور پر لی گئی تھی (اور و ہ شخص ابھی تک زندہ ہے)، لیکن بقِیَّہ مال کے بارے میں کچھ عِلْم نہیں کہ کتنا یا کون سا مال حرام ذریعے سے حاصل کیا گیا تھا، اب اس کے بیٹے مال ِ وِراثت تقسیم کرنا چاہتے ہیں، براہِ کرم شَرْعی رہنمائی فرمائیں کہ بیٹوں کے لئے اِس مال ِوِراثت کے متعلق کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    دریافت کی گئی صورت میں جس مال کے بارے میں عِلْم ہے کہ مُورِث (یعنی میّت) نے فلاں شخص سے بطور ِ رشوت لیا تھا اور وہ ابھی تک زندہ ہے تو وُرَثاء پر فرض ہے کہ وہ مال اسے واپس کریں،کیونکہ مال ِ رشوت کا حکم یہی ہے کہ جس سے لیا ہو اُسے واپس ہی کیا جائے، اور جس مال کا حرام ہونا جداگانہ معَیَّن طور پر معلوم ہے کہ یہ والا مال حرام ہی ہے لیکن کس شخص سے لیا وہ معلوم نہیں تو اس مال کو فقراء کو صدَقہ کردیں اور جس کے بارے میں علم نہیں کہ کتنا یا کونسا مال حرام کمائی سے ہے بلکہ اِجمالاً صرف اتنا معلوم ہے کہ مال ِ وِراثت میں حرام مال بھی شامل ہے تو وُرَثاء کے لئے وہ مال لینا جائز ہے، البتّہ اُس سے بچنا اور صدَقہ کردینا افضل ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم