سرچ کریں

Displaying 241 to 250 out of 977 results

241

کونڈوں کی نیاز حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے لیے ہے یا امام جعفر صادق رضی اللّٰہ عنہ کے لیے؟

سوال: مسلمان عام طور پر 22 رجب کوبالخصوص حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایصال ثواب کے لیے ہی کھانے وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں اور قرآن مجید و فاتحہ وغیرہ پڑھواتے ہیں، جس کو ” کونڈے “ کہاجاتا ہے ۔یہ شرعاً بالکل جائز ہے ۔صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ کونڈوں کے متعلق فرماتے ہیں:’’اسی طرح ماہ رجب میں بعض جگہ حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایصالِ ثواب کے لیے پور یوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں ، یہ بھی جائز مگر اس میں بھی اسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کررکھی ہے ،یہ بے جا پابندی ہے۔ ‘‘ (بھار شریعت ،جلد3،حصہ 16،صفحہ643، مکتبۃ المدینہ ،کراچی ) مزید فرماتے ہیں :’’امام جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کونڈے بھرنا اور اس پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر ایصال ثواب کرنا ، جائز ہے ۔اس کی اصل یہی ہے کہ ایصال ثواب جائز ہے ۔حدیث اور فقہ سے اس کا جواز ثابت ہے،جب تک کسی خاص صورت میں ممانعت ثابت نہ ہو ۔ اس کو ناجائز بتانا اللہ ورسول اور شریعت پر افترا کرنا ہے ۔‘‘ (فتاوی امجدیہ ،جلد1،حصہ 1،صفحہ365،مکتبہ رضویہ ،کراچی ) مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رجب کے کونڈوں کے بارے فرماتے ہیں :’’اس مہینہ کی22تاریخ کو ہندوپاک میں کونڈے ہوتے ہیں،یعنی نئے کونڈے منگائے جاتے ہیں اور سوا پاؤ میدہ، سوا پاؤشکر، سوا پاؤگھی کی پوریاں بناکر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرتے ہیں۔‘‘ (اسلامی زندگی ،صفحہ76،مکتبۃ المدینہ ،کراچی ) مزید فرماتے ہیں:’’رجب کے مہینہ میں22تاریخ کو کونڈوں کی رسم بہت اچھی اور برکت والی ہے۔مگر اس میں سے یہ قید نکال دو کہ فاتحہ کی چیز باہر نہ جائے اور لکڑی والے کا قصّہ ضرور پڑھا جائے۔‘‘ (اسلامی زندگی ،صفحہ80،مکتبۃ المدینہ ،کراچی ) محض اس بات کی وجہ سے اس ختمِ پاک کو ممنوع قرار نہیں دیا جاسکتا کہ22رجب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کا دن ہے ۔ اس دن حضرت امام جعفر صاد ق رضی اللہ عنہ کا وصال نہیں ہوا ، کیونکہ اولاً تو22 رجب کوحضرت امیر معاویہ کی تاریخ وفات قراردینا کوئی یقینی امر نہیں ہے ، بلکہ یہ آپ کی تاریخ وفات کے بارے منقول اقوال میں سے ایک قول ہے ، کیونکہ مؤرخین کااس بات پر تو اتفاق ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال شریف ساٹھ ہجری میں ہوا، لیکن تاریخ کیا تھی ؟ اس میں چار اقوال ہیں : (1) یکم رجب المرجب(2) 4 رجب المرجب(3)15رجب المرجب (4)22رجب المرجب ۔ المحبر،جلد1،صفحہ21پرآپ کی تاریخ وفات یکم رجب،مشاہیر علماء الامصار،جلد1،صفحہ86پر15رجب اورتاریخ خلیفہ بن خیاط، جلد1، صفحہ226 پر 22رجب لکھی ہے،جبکہ تاریخ طبری جلد5،صفحہ324پر مذکورہ تینوں اقوال اور البدایہ والنہایہ میں چارا قوال مذکورہیں ۔البدایہ والنہایہ میں ہے :’’لا خلاف أنہ رضی اللہ عنہ، توفی بدمشق فی رجب سنۃ ستین.فقال جماعۃ:لیلۃ الخمیس للنصف من رجب سنۃ ستین. وقیل:لیلۃ الخمیس لثمان بقین من رجب سنۃ ستین.قالہ ابن إسحاق وغیر واحد.وقیل:لأربع خلت من رجب.قالہ اللیث.وقال سعد بن إبراهیم:لمستهل رجب ‘‘ترجمہ:اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رجب 60ہجری میں دمشق میں وصال فرمایا ۔ ایک جماعت کا قول ہے کہ جمعرات کی رات 15رجب 60ہجری کو ،ایک قول یہ ہے کہ جمعرات کی رات 22رجب 60ہجری کو ،یہ ابن اسحاق اوردیگر کا قول ہے ،ایک قول ہے کہ 4رجب کو ،یہ لیث کا قول ہے ، سعد بن ابراہیم نے کہا : یکم رجب کو ۔ (البدایہ والنھایہ ،ترجمۃ معاویہ ،جلد11،صفحہ458،دارھجر) اگر بالفرض 22 رجب ہی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وصال کا دن ہو ، تب بھی اس وجہ سے اس دن حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو ایصال ثواب کرنا ممنو ع نہیں ہوسکتاکہ ایک دن میں کسی بزرگ کا انتقال ہونا ، اس دن کسی دوسرے بزرگ کو ایصال ثواب کرنے کی ممانعت کی وجہ نہیں بن سکتا ۔ اسی طرح اِس دن حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ کا وصال نہ ہونے سے اس دن آپ کو ایصال ثواب کرنا تو ممنوع نہیں ہوجائے گا کہ ایصال ثواب احادیث سے مطلقا ثابت ہے ۔ جب بھی کیا جائے درست ہے ۔چاہے وہ وصال کا دن ہو یا نہ ہواور یہ بات بالکل واضح ہے۔ مزید یہ کہ کونڈوں کے ختم کو بدمذہبوں کا طریقہ کہہ کرممنوع قراردینا اور اس سے بدمذہبوں سے تشبہ سمجھنا بھی باطل ہے ، کیونکہ کفار و بدمذہبوں سے مشابہت کے ممنوع ہونے کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ وہی تشبہ ممنوع ہے جس میں فاعل کی نیت تشبہ کی ہو یاوہ شے ان بدمذہبوں کا شعارخاص ہو یااس چیز میں فی نفسہ شرعاً کوئی حرج ہو، بغیر ان صورتوں کے ہرگز کوئی وجہ ممانعت نہیں۔درمختار اور بحرالرائق میں ہے:( والنظم للثانی)’’التشبیہ بأھل الکتاب لا یکرہ فی کل شیء وإنا نأکل ونشرب کما یفعلون إنما الحرام ھو التشبہ فیما کان مذموما وفیما یقصد بہ التشبیہ کذا ذکرہ قاضی خان فی شرح الجامع الصغیر‘‘ترجمہ:ہرچیز میں اہل کتاب سے مشابہت مکروہ نہیں جیسا کہ ہم بھی کھاتے پیتے ہیں اور وہ بھی کھاتے پیتے ہیں ۔ ان سے تشبہ اُن کاموں میں حرام ہے جومذموم یعنی برے ہیں یاجن میں مشابہت کاارادہ کیاجائے،امام قاضی خان نے شرح جامع صغیر میں ایسے ہی ذکر فرمایا ہے ۔ (البحرالرائق ،کتاب الصلوۃ ،باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا،جلد2،صفحہ11،دارالکتاب الاسلامی ) علامہ ملا علی قاری منح الروض میں فرماتے ہیں :’’ اناممنوعون من التشبیہ بالکفرۃ واھل البدعۃ المنکرۃ فی شعارھم لامنھیون عن کل بدعۃ ولوکانت مباحۃ سواء کانت من افعال اھل السنۃ اومن افعال الکفر واھل البدعۃ فالمدار علی الشعار‘‘ترجمہ: ہمیں کافروں اور منکرین ، بدعات کے مرتکب لوگوں کے شعار کی مشابہت سے منع کیاگیاہے ،ہر بدعت میں مشابہت سے منع نہیں کیا گیا، ہاں اگر وہ بدعت جو مباح کادرجہ رکھتی ہو اس سے نہیں روکاگیا،خواہ وہ اہلسنت کے افعال ہوں یاکفار اوراہل بدعت کے۔ لہٰذا مدارِکارشعار ہونے پرہے۔ ( منح الروض الازھر علی الفقہ الاکبر،فصل فی الکفر صریحا وکنایۃ ،صفحہ496،دارالبشائر الاسلامیہ) البتہ تشبہ کی نیت کا نہ ہونا تو ظاہر ہے اور مدعی نے اس کو وجہ ممانعت بھی نہیں قرار دیا اور فی نفسہ ایصال ثواب کرنے میں شرعی طور پر کوئی قباحت بھی نہیں ۔رہی یہ بات کہ کونڈوں کا ختم دلانا بدمذہبوں کا شعار خاص ہے یا نہیں ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ان کا شعارخاص نہیں ہے بلکہ 22 رجب کو کونڈوں کا ختم دلانا بہت مقامات پر سُنی مسلمانوں میں بھی رائج ہے ۔ہاں جو شخص اس کا دعویٰ کرے کہ کونڈوں کا ختم بدمذہبوں کا شعارخاص ہے،تو اُس پر لازم ہے کہ ثبوت پیش کرے،ورنہ بدمذہبوں کے ہر فعل سے مشابہت ممنو ع نہیں۔سیدی امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نماز عید کے بعد معانقہ کے عدم جواز پربطور دلیل پیش کی ہوئی ایک عبارت ، جو اس بات پر مشتمل تھی کہ’’ نمازکے بعد مصافحہ کرنا سنت ِروافض ہے‘‘ کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یوں ہی مصافحہ بعد نماز فجر وعصر اگر کسی وقت کے روافض نے ایجاد کیا اور خاص ان کا شعار رہا ہو، اور بدیں وجہ اس وقت علماء نے اہلسنت کے لئے اسے ناپسند رکھا ہو تو معانقہ عید کا زبردستی اسی پر قیاس کیونکر ہو جائے گا، پہلے ثبوت دیجئے کہ یہ ’’رافضیوں کا نکالا اور انہیں کا شعار خاص ہے۔‘‘ورنہ کوئی امر جائز کسی بدمذہب کے کرنے سے ناجائز یا مکروہ نہیں ہوسکتا ۔ لاکھوں باتیں ہیں جن کے کرنے میں اہلسنت وروافض بلکہ مسلمین وکفار سب شریک ہیں۔ کیا وہ اس وجہ سے ممنوع ہوجائیں گی؟ بحرالرائق ودرمختار و ردالمحتار وغیرہا ملاحظہ ہوں کہ بد مذہبوں سے مشابہت اُسی امر میں ممنوع ہے ، جو فی نفسہٖ شرعا مذموم یا اس قوم کا شعار خاص یا خود فاعل کو ان سے مشابہت پیدا کرنا مقصود ہو ورنہ زنہار وجہ ممانعت نہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،جلد8،صفحہ624،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

241
242

چیز پر قبضہ کیے بغیر آگے بیچ دینا ، آن لائن خرید و فروخت کی ایک صورت

سوال: ہم آن لائن اسٹور بناتے ہیں ،جس کا ماہانہ کرایہ بھی ہم دیتے ہیں ، ہم اپنے آن لائن اسٹور پر کسی ویب سائٹ سے کوئی پروڈکٹ تلاش کر کے لگاتے ہیں ، اس میں قیمت بھی لکھی ہوتی ہے اور جس کسٹمر کو وہ چیز پسند آتی ہے، وہ خریدنا چاہتا ہے، تو اس میں خریدنے والے آپشن کو کلک کرتا ہے، وہاں خریدنے کی ہیڈنگ بھی موجود ہوتی ہے،پھر اس کے بعد بسا اوقات بعض چیزوں کی قیمت کی بارگیننگ کر کے ریٹ فائنل کر لیتے ہیں،تو ہم بیچنے کےآپشن پر کلک کر کے اسے بیچ دیتے ہیں اور اس سے رقم وصول کر لیتے ہیں ، اس کے بعد ہم ویب سائٹ والوں سے آن لائن خرید کر قیمت کی ادائیگی کر دیتے ہیں اور انہیں کسٹمر کا ایڈریس دے دیتے ہیں ،وہ کسٹمر کو چیز پہنچا دیتے ہیں ۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ خریدو فروخت کا یہ طریقہ شرعا جائز ہے یا نہیں ؟ جبکہ کسٹمر کو بیچنے کے بعد ہم خود خریدتے ہیں اورپھر چیز بھی ہمارے قبضے میں نہیں آتی۔ واضح رہے کہ اس میں کمیشن والا معاملہ نہیں ہوتا، بلکہ ہم کسٹمر کو باقاعدہ بیچتے ہیں، پھر بعد میں خود خریدتے ہیں ۔

242
249

Loan apps کے ذریعے قرض لینا کیسا ؟

سوال: کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج کل کچھ اس طرح کی موبائل ایپلی کیشنز آئی ہوئی ہیں جن کے ذریعے کوئی بھی آسانی سے قرض حاصل کر لیتا ہے ۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے اپنی پرسنل انفارمیشن جمع کروا کے اکاؤنٹ بنایا جاتا ہے اور پھر قرض کی درخواست دے دی جاتی ہے۔ عموما پہلی مرتبہ کم مقدار میں قرض ملتا ہے ، پھر اگر بروقت واپس ادا کر دیا جائے تو دوسری بار زیادہ مقدار میں قرض ملتا ہے۔ قرض کی رقم آپ کے کسی اکاؤنٹ مثلا بینک اکاؤنٹ یا جاز کیش اکاؤنٹ وغیرہ میں آجاتی ہے اور اسی طرح آن لائن رقم بھیجنے کے ذرائع استعمال کر کے آپ وہ رقم واپس بھیج سکتے ہیں۔ قرض کے طور پر جتنی رقم دی جاتی ہے واپسی میں ا س سے کچھ نہ کچھ زیادہ رقم دینی ہوتی ہے۔ بعض ایپلی کیشنز قرض پر اضافی رقم الگ سے لیتی ہیں اور سروس چارجز کے نام پر رقم الگ لیتی ہیں۔ مثلا آپ نے بارہ ہزار قرض کی درخواست کی ہے تو آپ کے اکاؤنٹ میں 9 ہزار آئیں گے۔ یعنی 5 سو روپے سروس چارجز کے اور پچیس سو (2500) روپےقرض پر جو اضافہ لینا ہے وہ پہلے ہی کاٹ لئے جائیں گے اور اب رقم واپس کرنی ہے تو پورے 12 ہزار واپس کرنے ہیں۔ اس تفصیل کے مطابق سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی ایپلی کیشنز کے ذریعے قرض لینا جائز ہے یا نہیں؟

249