سرچ کریں

Displaying 71 to 80 out of 1173 results

76

دوسرے ملک کی نیشنلٹی حاصل کرنے سے وہ ملک وطن اصلی بن جائے گا ؟

سوال: درج ذیل صورتوں میں اسپین (دار الحرب) میں رہتے ہوئے اس کا کوئی شہر وطنِ اصلی بن جائےگا؟ 1.ایک شخص یہاں کا نیشنلٹی ہولڈر(Nationality Holder) ہے اور چونکہ پاکستان اور اسپین میں دُہری شہریت کا معاہدہ نہیں اس لیے پاکستان جانے کے لیے اس کو ویزا لینا پڑتا ہے ۔ آیا یہاں جس شہر میں اس کی رہائش ہے ،وہ اس کا وطن اصلی کہلائےگا؟ 2.ایک شخص جس کے پاس پرمننٹ ریزیڈنسی (Permanent Residency) (مستقل رہائش ) ہے، البتہ پاسپورٹ اور نیشنلٹی (Nationality) پاکستان کی ہے، اس کے لیے اسپین کا شہر وطن اصلی بن جائےگا؟ 3.ایک شخص جس کے پاس ٹمپریری ریزیڈنسی (Temporary Residency) (عارضی رہائش) ہے اور پاسپورٹ و نیشنلٹی (Nationality) پاکستان کی ہے، اس کے لیے اسپین کا شہر وطن اصلی بن جائےگا ؟ 4.ایک شخص جو یہیں پیدا ہوا مگر نیشنلٹی (Nationality) پاکستان ہی کی ہے،تو اس کے لیے اسپین کا شہر وطن اصلی بن جائےگا؟ ان میں ہر ایک صورت کی دونوں صورتیں واضح ہو جائیں کہ آیا مستقل ہمیشہ یہیں رہنے کا ارادہ ہو اور فیملی وغیرہ بھی ساتھ ہی شفٹ ہو،تو کیا حکم ہوگا اور اگر بڑے بوڑھے ہو جانے کے بعد واپس پاکستان جانے کا ارادہ ہے،تو کیا حکم ہوگا۔بعض لوگوں کے پاس ابھی ٹمپریری ریزیڈنس کارڈ (Temporary Residence Card)ہوتا ہے،مگر ان کی مستقل یہیں رہنے کی نیت بن جاتی ہے ان کا کیا حکم ہوگا، اسی طرح ایسے بعض حضرات کا کاروبار وغیرہ یا جائداد وغیرہ یہیں بن جاتی ہیں اور ان کی یہیں جینے مرنے کی نیت بن جاتی ہے ،تو کیا حکم ہوگا؟ بعض حضرات کے پاس پرمننٹ ریزیڈنس کارڈ (Permanent Residence Card) ہوتے ہوئے بھی عمر کے آخری حصے میں پاکستان واپس جانے ہی کی نیت ہو، مثلاً:بال بچے یہیں رہیں میری نسل یہیں پروان چڑھے، البتہ میں عمر کے آخری حصے میں پاکستان چلا جاؤں گا ایسی صور ت میں اس شخص کا اسپین کے شہر کو وطنِ اصلی قرار دینے کا کیا حکم ہوگا؟ اسی سے متصل یہ کہ بعض لوگوں کے پاس پرمننٹ ریزیڈنس کارڈ ہے اور انہوں نے اپنے بال بچے بھی یہیں شفٹ کر لیے ہیں کاروبار خاندان سب یہیں ہے، اب ان کی یہاں سے واپس جانے کی نیت نہیں ،ایسی صورت میں اسپین کا شہر ان کے لیے وطن اصلی بن جائےگا؟ وضاحت: ریزیڈنسی (Residency) سے مراد نیشنل آئی ڈی کارڈ برائے غیر ملکی حضرات ہے(Foreigner Identification Card) یعنی ریزیڈنس(رہائش) کی اجازت کا کارڈ ہے۔ اسپین کے قانون کے مطابق لیگل (Legal) ( قانونی طور پر نئے آنے والے )شخص کو پہلے ایک سال کا ریزیڈنس کار (Residence Card)ملتا ہے،پھر ری نیو کروانے پر دو سال کا ریزیڈنس کارڈ (Residence Card) ملتا ہے ،پھر دو سال کی مدت پوری ہو جانے پر دوبارہ ری نیو کروانا ہوتا ہے، جس کے بعد پھر دو سالہ ریزیڈنس کارڈ (Residence Card) ملتاہے۔ان مذکورہ تمام کارڈز کو ٹمپریری ریزیڈنس کارڈ (Temporary Residence Card) کہتے ہیں۔ان کی ری نیوویشن (Renovation) کی بعض شرائط بھی ہوا کرتی ہیں۔ جیسے درخواست دہندہ کا مخصوص عرصے سے جاب پر ہونا یا کاروبار کرتے ہوئے ہونا،ٹیکس پے ہوا ہونا وغیرہ، ان شرائط کے پائے جانے کی صورت میں ری نیویشن کی درخواست منظور ہوجانے کا ظن غالب ہوتا ہے۔ اس کے بعد ری نیو کر وانے پر 5 سالہ ریزیڈنس کارڈ ملتا ہے، جو کہ پرمننٹ ریزیڈنس کارڈ (Permanent Residence Card) ہوتا ہے، اس کے بعد ہر 5 سال بعد اسے ری نیو کروانے کی صرف درخواست دینی ہوتی ہے، اس کے علاوہ کوئی شرائط نہیں ہوتیں،جیسے ہی درخواست دی جاتی ہے یہ دوبارہ ری نیو ہو کر 5 سال کا مل جاتا ہے۔ جب ایک شخص کو 10 سال ہو جائیں ،تو وہ نیشنلٹی (Nationality) اپلائی کر سکتا ہے۔ پرمننٹ ریز ڈنس کارڈ اور نیشنلٹی میں فرق یہ ہے کہ پرمننٹ ریزیڈنس کارڈ والے کو وہاں رہائش کی غیر محدود مدت تک اجازت ہوتی ہے ،مگر وہ وہاں کا قومی نہیں کہلاتا، جبکہ نیشنلٹی والے کو غیر محدود مدت تک رہائش کی اجازت کے ساتھ ساتھ وہاں کی قومیت بھی حاصل ہوتی ہے۔

76
80

کونڈوں کی نیاز حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے لیے ہے یا امام جعفر صادق رضی اللّٰہ عنہ کے لیے؟

سوال: مسلمان عام طور پر 22 رجب کوبالخصوص حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایصال ثواب کے لیے ہی کھانے وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں اور قرآن مجید و فاتحہ وغیرہ پڑھواتے ہیں، جس کو ” کونڈے “ کہاجاتا ہے ۔یہ شرعاً بالکل جائز ہے ۔صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ کونڈوں کے متعلق فرماتے ہیں:’’اسی طرح ماہ رجب میں بعض جگہ حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایصالِ ثواب کے لیے پور یوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں ، یہ بھی جائز مگر اس میں بھی اسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کررکھی ہے ،یہ بے جا پابندی ہے۔ ‘‘ (بھار شریعت ،جلد3،حصہ 16،صفحہ643، مکتبۃ المدینہ ،کراچی ) مزید فرماتے ہیں :’’امام جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کونڈے بھرنا اور اس پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر ایصال ثواب کرنا ، جائز ہے ۔اس کی اصل یہی ہے کہ ایصال ثواب جائز ہے ۔حدیث اور فقہ سے اس کا جواز ثابت ہے،جب تک کسی خاص صورت میں ممانعت ثابت نہ ہو ۔ اس کو ناجائز بتانا اللہ ورسول اور شریعت پر افترا کرنا ہے ۔‘‘ (فتاوی امجدیہ ،جلد1،حصہ 1،صفحہ365،مکتبہ رضویہ ،کراچی ) مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رجب کے کونڈوں کے بارے فرماتے ہیں :’’اس مہینہ کی22تاریخ کو ہندوپاک میں کونڈے ہوتے ہیں،یعنی نئے کونڈے منگائے جاتے ہیں اور سوا پاؤ میدہ، سوا پاؤشکر، سوا پاؤگھی کی پوریاں بناکر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرتے ہیں۔‘‘ (اسلامی زندگی ،صفحہ76،مکتبۃ المدینہ ،کراچی ) مزید فرماتے ہیں:’’رجب کے مہینہ میں22تاریخ کو کونڈوں کی رسم بہت اچھی اور برکت والی ہے۔مگر اس میں سے یہ قید نکال دو کہ فاتحہ کی چیز باہر نہ جائے اور لکڑی والے کا قصّہ ضرور پڑھا جائے۔‘‘ (اسلامی زندگی ،صفحہ80،مکتبۃ المدینہ ،کراچی ) محض اس بات کی وجہ سے اس ختمِ پاک کو ممنوع قرار نہیں دیا جاسکتا کہ22رجب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کا دن ہے ۔ اس دن حضرت امام جعفر صاد ق رضی اللہ عنہ کا وصال نہیں ہوا ، کیونکہ اولاً تو22 رجب کوحضرت امیر معاویہ کی تاریخ وفات قراردینا کوئی یقینی امر نہیں ہے ، بلکہ یہ آپ کی تاریخ وفات کے بارے منقول اقوال میں سے ایک قول ہے ، کیونکہ مؤرخین کااس بات پر تو اتفاق ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال شریف ساٹھ ہجری میں ہوا، لیکن تاریخ کیا تھی ؟ اس میں چار اقوال ہیں : (1) یکم رجب المرجب(2) 4 رجب المرجب(3)15رجب المرجب (4)22رجب المرجب ۔ المحبر،جلد1،صفحہ21پرآپ کی تاریخ وفات یکم رجب،مشاہیر علماء الامصار،جلد1،صفحہ86پر15رجب اورتاریخ خلیفہ بن خیاط، جلد1، صفحہ226 پر 22رجب لکھی ہے،جبکہ تاریخ طبری جلد5،صفحہ324پر مذکورہ تینوں اقوال اور البدایہ والنہایہ میں چارا قوال مذکورہیں ۔البدایہ والنہایہ میں ہے :’’لا خلاف أنہ رضی اللہ عنہ، توفی بدمشق فی رجب سنۃ ستین.فقال جماعۃ:لیلۃ الخمیس للنصف من رجب سنۃ ستین. وقیل:لیلۃ الخمیس لثمان بقین من رجب سنۃ ستین.قالہ ابن إسحاق وغیر واحد.وقیل:لأربع خلت من رجب.قالہ اللیث.وقال سعد بن إبراهیم:لمستهل رجب ‘‘ترجمہ:اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رجب 60ہجری میں دمشق میں وصال فرمایا ۔ ایک جماعت کا قول ہے کہ جمعرات کی رات 15رجب 60ہجری کو ،ایک قول یہ ہے کہ جمعرات کی رات 22رجب 60ہجری کو ،یہ ابن اسحاق اوردیگر کا قول ہے ،ایک قول ہے کہ 4رجب کو ،یہ لیث کا قول ہے ، سعد بن ابراہیم نے کہا : یکم رجب کو ۔ (البدایہ والنھایہ ،ترجمۃ معاویہ ،جلد11،صفحہ458،دارھجر) اگر بالفرض 22 رجب ہی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وصال کا دن ہو ، تب بھی اس وجہ سے اس دن حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو ایصال ثواب کرنا ممنو ع نہیں ہوسکتاکہ ایک دن میں کسی بزرگ کا انتقال ہونا ، اس دن کسی دوسرے بزرگ کو ایصال ثواب کرنے کی ممانعت کی وجہ نہیں بن سکتا ۔ اسی طرح اِس دن حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ کا وصال نہ ہونے سے اس دن آپ کو ایصال ثواب کرنا تو ممنوع نہیں ہوجائے گا کہ ایصال ثواب احادیث سے مطلقا ثابت ہے ۔ جب بھی کیا جائے درست ہے ۔چاہے وہ وصال کا دن ہو یا نہ ہواور یہ بات بالکل واضح ہے۔ مزید یہ کہ کونڈوں کے ختم کو بدمذہبوں کا طریقہ کہہ کرممنوع قراردینا اور اس سے بدمذہبوں سے تشبہ سمجھنا بھی باطل ہے ، کیونکہ کفار و بدمذہبوں سے مشابہت کے ممنوع ہونے کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ وہی تشبہ ممنوع ہے جس میں فاعل کی نیت تشبہ کی ہو یاوہ شے ان بدمذہبوں کا شعارخاص ہو یااس چیز میں فی نفسہ شرعاً کوئی حرج ہو، بغیر ان صورتوں کے ہرگز کوئی وجہ ممانعت نہیں۔درمختار اور بحرالرائق میں ہے:( والنظم للثانی)’’التشبیہ بأھل الکتاب لا یکرہ فی کل شیء وإنا نأکل ونشرب کما یفعلون إنما الحرام ھو التشبہ فیما کان مذموما وفیما یقصد بہ التشبیہ کذا ذکرہ قاضی خان فی شرح الجامع الصغیر‘‘ترجمہ:ہرچیز میں اہل کتاب سے مشابہت مکروہ نہیں جیسا کہ ہم بھی کھاتے پیتے ہیں اور وہ بھی کھاتے پیتے ہیں ۔ ان سے تشبہ اُن کاموں میں حرام ہے جومذموم یعنی برے ہیں یاجن میں مشابہت کاارادہ کیاجائے،امام قاضی خان نے شرح جامع صغیر میں ایسے ہی ذکر فرمایا ہے ۔ (البحرالرائق ،کتاب الصلوۃ ،باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا،جلد2،صفحہ11،دارالکتاب الاسلامی ) علامہ ملا علی قاری منح الروض میں فرماتے ہیں :’’ اناممنوعون من التشبیہ بالکفرۃ واھل البدعۃ المنکرۃ فی شعارھم لامنھیون عن کل بدعۃ ولوکانت مباحۃ سواء کانت من افعال اھل السنۃ اومن افعال الکفر واھل البدعۃ فالمدار علی الشعار‘‘ترجمہ: ہمیں کافروں اور منکرین ، بدعات کے مرتکب لوگوں کے شعار کی مشابہت سے منع کیاگیاہے ،ہر بدعت میں مشابہت سے منع نہیں کیا گیا، ہاں اگر وہ بدعت جو مباح کادرجہ رکھتی ہو اس سے نہیں روکاگیا،خواہ وہ اہلسنت کے افعال ہوں یاکفار اوراہل بدعت کے۔ لہٰذا مدارِکارشعار ہونے پرہے۔ ( منح الروض الازھر علی الفقہ الاکبر،فصل فی الکفر صریحا وکنایۃ ،صفحہ496،دارالبشائر الاسلامیہ) البتہ تشبہ کی نیت کا نہ ہونا تو ظاہر ہے اور مدعی نے اس کو وجہ ممانعت بھی نہیں قرار دیا اور فی نفسہ ایصال ثواب کرنے میں شرعی طور پر کوئی قباحت بھی نہیں ۔رہی یہ بات کہ کونڈوں کا ختم دلانا بدمذہبوں کا شعار خاص ہے یا نہیں ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ان کا شعارخاص نہیں ہے بلکہ 22 رجب کو کونڈوں کا ختم دلانا بہت مقامات پر سُنی مسلمانوں میں بھی رائج ہے ۔ہاں جو شخص اس کا دعویٰ کرے کہ کونڈوں کا ختم بدمذہبوں کا شعارخاص ہے،تو اُس پر لازم ہے کہ ثبوت پیش کرے،ورنہ بدمذہبوں کے ہر فعل سے مشابہت ممنو ع نہیں۔سیدی امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نماز عید کے بعد معانقہ کے عدم جواز پربطور دلیل پیش کی ہوئی ایک عبارت ، جو اس بات پر مشتمل تھی کہ’’ نمازکے بعد مصافحہ کرنا سنت ِروافض ہے‘‘ کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یوں ہی مصافحہ بعد نماز فجر وعصر اگر کسی وقت کے روافض نے ایجاد کیا اور خاص ان کا شعار رہا ہو، اور بدیں وجہ اس وقت علماء نے اہلسنت کے لئے اسے ناپسند رکھا ہو تو معانقہ عید کا زبردستی اسی پر قیاس کیونکر ہو جائے گا، پہلے ثبوت دیجئے کہ یہ ’’رافضیوں کا نکالا اور انہیں کا شعار خاص ہے۔‘‘ورنہ کوئی امر جائز کسی بدمذہب کے کرنے سے ناجائز یا مکروہ نہیں ہوسکتا ۔ لاکھوں باتیں ہیں جن کے کرنے میں اہلسنت وروافض بلکہ مسلمین وکفار سب شریک ہیں۔ کیا وہ اس وجہ سے ممنوع ہوجائیں گی؟ بحرالرائق ودرمختار و ردالمحتار وغیرہا ملاحظہ ہوں کہ بد مذہبوں سے مشابہت اُسی امر میں ممنوع ہے ، جو فی نفسہٖ شرعا مذموم یا اس قوم کا شعار خاص یا خود فاعل کو ان سے مشابہت پیدا کرنا مقصود ہو ورنہ زنہار وجہ ممانعت نہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،جلد8،صفحہ624،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور) و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

80