سرچ کریں

Displaying 1 to 10 out of 1095 results

2

Loan apps کے ذریعے قرض لینا کیسا ؟

سوال: کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج کل کچھ اس طرح کی موبائل ایپلی کیشنز آئی ہوئی ہیں جن کے ذریعے کوئی بھی آسانی سے قرض حاصل کر لیتا ہے ۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے اپنی پرسنل انفارمیشن جمع کروا کے اکاؤنٹ بنایا جاتا ہے اور پھر قرض کی درخواست دے دی جاتی ہے۔ عموما پہلی مرتبہ کم مقدار میں قرض ملتا ہے ، پھر اگر بروقت واپس ادا کر دیا جائے تو دوسری بار زیادہ مقدار میں قرض ملتا ہے۔ قرض کی رقم آپ کے کسی اکاؤنٹ مثلا بینک اکاؤنٹ یا جاز کیش اکاؤنٹ وغیرہ میں آجاتی ہے اور اسی طرح آن لائن رقم بھیجنے کے ذرائع استعمال کر کے آپ وہ رقم واپس بھیج سکتے ہیں۔ قرض کے طور پر جتنی رقم دی جاتی ہے واپسی میں ا س سے کچھ نہ کچھ زیادہ رقم دینی ہوتی ہے۔ بعض ایپلی کیشنز قرض پر اضافی رقم الگ سے لیتی ہیں اور سروس چارجز کے نام پر رقم الگ لیتی ہیں۔ مثلا آپ نے بارہ ہزار قرض کی درخواست کی ہے تو آپ کے اکاؤنٹ میں 9 ہزار آئیں گے۔ یعنی 5 سو روپے سروس چارجز کے اور پچیس سو (2500) روپےقرض پر جو اضافہ لینا ہے وہ پہلے ہی کاٹ لئے جائیں گے اور اب رقم واپس کرنی ہے تو پورے 12 ہزار واپس کرنے ہیں۔ اس تفصیل کے مطابق سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی ایپلی کیشنز کے ذریعے قرض لینا جائز ہے یا نہیں؟

2
4

شیئرز کے کاروبار کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کمپنیوں کے شیئرز دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جن پر نفع و نقصان ہوتا ہے۔ دوم وہ جن پر فقط نفع ہو ، جس کو ہم سود کہتے ہیں ۔جناب عالی مندرجہ بالا دوسری قسم تو مکمل حرام ہے ، کیونکہ یہ سود ہے۔مگر میراآپ سے سوال یہ ہے کہ پہلی قسم جس میں شیئرز ہولڈر اپنے حصے کے شیئرز پر نفع بھی لے رہا ہے اور نقصان بھی برداشت کررہا ہے ، کیا وہ جائز نہیں؟ علماء و مفتیان کرام پہلی قسم یعنی نفع و نقصان والے شیئرز کو بھی حرام قرار دیتے ہیں اور اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہر کمپنی چونکہ قرضہ لیتی یا دیتی ہے ، تو اس قرضہ کے لینے ،دینے پر وہ سود کماتی یا دیتی ہے ، لہٰذا چونکہ کمپنی کی کمائی میں سود شامل ہوگیا ، لہٰذا اس کمپنی کے شیئرز خواہ وہ مساواتی ہوں ، وہ حرام ہیں۔علماء کرام کے اس موقف پر مجھ ناچیز اور کم علم رکھنے والے شخص کا سوال ہے : جیسے میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور میری تنخواہ بھی سرکاری خزانے سے میرے بینک اکاؤنٹ میں آتی ہے ،توکیا آپ اس سرکاری تنخواہ و پنشن کو بھی حرام قرار دیں گے؟کیونکہ سرکار بھی تو دوسرے ملکوں اور بینکوں سےقرضہ لیتی اور خزانے سے پرائیویٹ بینکوں اور کمپنیوں کو قرضہ دیتی ہے۔اگر سرکاری تنخواہ و پنشن حرام ہے ، تو بڑے بڑے علماء ومفتیان کرام بھی تو سرکارسے تنخواہ و پنشن لیتے ہیں ،تو کیا وہ بھی حرام کمارہے ہیں؟ میرا سوال آپ سے مندرجہ بالا سوالات و حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ہے کہ مساواتی شیئرز جائز ہیں یا نہیں؟

4