لاعلاج اور ناقابل برداشت تکیلف دہ بیماری کی وجہ سے مریض کو موت کا انجیکشن لگانا کیسا؟

مجیب:مولانا شاکر مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-7074

تاریخ اجراء:12صفرالمظفر1442 ھ/30ستمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض مریض ایسے مہلک اورتکلیف دہ مرض میں مبتلاہوتے ہیں،جن کاعلاج میڈیکل سائنس کے اعتبارسے ناممکن ہوتاہے ۔مریض کی تکلیف قابلِ برداشت نہیں ہوتی ،کیاایسی صورت میں مریض کے لیے جائزہے کہ وہ خودکو موت کاانجیکشن لگالے یااس کی ناقابلِ برداشت تکلیف دہ حالت دیکھ کرڈاکٹرجذبہ رحم کے تحت مریض کے اہل خانہ کی اجازت سے موت کاانجیکشن لگادے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    ایسے مریض جوناقابلِ برداشت تکلیف دہ مرض میں مبتلاہوں اورمیڈیکل سائنس کے اعتبارسے صحت یاب ہونے کی امیدنہ ہو،توشدتِ تکلیف سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لیے مریض کا مہلک دوا یا انجیکشن استعمال کرنا ،جس سے فوراً موت واقع ہوجائے ، حرام وگناہ ہے،کیونکہ یہ خودکشی ہی کی ایک صورت ہےاوراہل ِ خانہ کی اجازت سےڈاکٹرکاجذبۂ رحم کے تحت مریض کومہلک دوایاانجیکشن دینا بھی حرام وگناہ ہے، کیونکہ یہ بھی ناحق طورپرانسان کوقتل کرنے کی ایک صورت ہے۔ مریض کے اہل خانہ اورڈاکٹر بہترسے بہترعلاج کریں اور تکلیف کم کرنے کی کوشش کریں  اور جہاں تک فی الحال کوئی علاج نہ ملنے کاتعلق ہے ، تو ہوسکتا ہے کہ جلد دریافت ہوجائے  کیونکہ اللہ تعالی نے ہر  بیماری کی دوا تو پیدا فرمائی ہے، صرف اس تک پہنچنے کا مسئلہ ہے اور وہ کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔بیسیوں بیماریوں کو ڈاکٹرز لاعلاج کہتے تھے ، لیکن اب ان کے علاج دریافت ہوچکے ہیں۔ یونہی  بہت سے ایسے لوگ موجودہیں، جن کی بیماری کوڈاکٹرزنے لاعلاج قراردے دیاتھا،لیکن اللہ پاک نے انہیں شفاعطا فرمائی اوروہ برسوں زندہ بھی رہے،لہذاڈاکٹرزکاکام سنجیدگی سے علاج کرنے کی کوشش میں لگے رہناہے،نہ کہ کسی کی زندگی اپنی ظنی علم کی روشنی میں ختم کردیناہے۔

    بیماری اللہ تعالی کی طرف سے ایک آزمائش ہے، مسلمان مریض کوچاہیے کہ وہ عارضی اورفانی دنیا کی تکلیف پرصبرکرکے آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی میں اجرحاصل کرےاوراللہ تعالی صبرکرنے پرمریض کے گناہوں کومٹاتاہے اورآخرت میں اس کے درجات بلندفرماتاہے،یہی وجہ ہے کہ جب ایسے کچھ واقعات نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہوئے،توآپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تکلیف میں مبتلاافرادکوصبرکی تاکیدوتلقین فرمائی،نہ کہ انہیں خودکوہلاک کرنے کی ترغیب بیان فرمائی اورجنہوں نے صبرنہ کیااورتکلیف کی شدت سے چھٹکاراپانے کے لیے خود کوہلاک کردیا،توآپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس کی وعیدبیان فرمائی۔

     کتب ِ فقہ میں بھی ایسے قتل یا خودکشی کے حرام ہونے کے نظائر موجود ہیں ۔ چنانچہ فقہائے کرام نے فرمایاکہ اگرایک شخص دوسرے کومجبورکرے کہ فلاں کوقتل کرو،ورنہ میں تجھے قتل کردوں گا،تواس مجبورکیے گئے شخص کے لیے جائزنہیں کہ وہ فلاں کوقتل کرے ،اگرچہ اس کی خود کی زندگی جاتی رہے۔

    اپنے ہاتھوں خودکوہلاک کرنے کےحرام ہونے کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتاہے:﴿ وَلَا تُلْقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمْ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ﴾ترجمہ کنزالایمان:اوراپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔

 (القرآن،سورۃ البقرۃ،آیت195)

    مذکورہ بالاآیت کے تحت شیخ القرآن مفتی محمدقاسم قادری دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:”ہروہ چیزجوہلاکت کاباعث ہوان سب سے بازرہنے کاحکم ہے ،حتی کہ بے ہتھیارمیدانِ جنگ میں جانایازہرکھانایاکسی طرح خود کشی کرناسب حرام ہے۔“

(تفسیرصراط الجنان،ج01،ص353،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    ایک اورمقام پراللہ رب العزت ارشادفرماتاہے : ﴿ وَلَا تَقْتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیۡمًا ﴾ترجمہ کنزالایمان:اوراپنی جانیں قتل نہ کرو۔بیشک اللہ تم پرمہربان ہے۔        

(القرآن،سورۃ النساء،آیت29)

    شدتِ تکلیف سے بچنے کے لئے خودکوہلاک کرنے کے حرام ہونے کے بارے میں صحیح بخاری میں ہے:’’ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:کان فیمن کان قبلکم رجل بہ جرح، فجزع، فأخذ سکینا فحز بہا یدہ، فما رقأ الدم حتی مات، قال اللہ تعالی:بادرنی عبدی بنفسہ، حرمت علیہ الجنۃ ‘‘ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:تم سے پہلی امتوں میں ایک شخص زخمی ہوگیا،اس نے (شدتِ تکلیف کی بناپر)بے صبری کی اورچھری لے کراپناہاتھ کاٹ ڈالا،پھراس کاخون نہیں رہا،حتی کہ وہ مرگیا،اللہ تعالی نے فرمایا:میرے بندہ نے اپنی جان لینے میں مجھ پرسبقت کی،میں نے اس پرجنت کوحرام کردیا۔

(صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب ماذکرعن بنی اسرائیل،ج01،ص492،مطبوعہ کراچی )

    صحیح مسلم میں ہے:’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ جنگ حُنین میں تھے،ہم لوگوں میں ایک شخص تھا،جس کامسلمانوں میں شمارہوتاتھا،رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا:یہ جہنمی ہے ،جب جنگ شروع ہوئی، تووہ شخص بڑی بہادری سے لڑااورزخمی ہوگیا،رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عرض کیاگیا:یارسول اللہ !جس شخص کے بارے میں آپ نے فرمایاتھاکہ وہ جہنمی ہے ،وہ توآج بہت بہادری سے لڑااوراب وہ مرچکاہے،آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:وہ دوزخ میں گیا،بعض صحابہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فرمان کی تِہہ تک نہ پہنچ سکے،اتنے میں کسی شخص نے آکرعرض کیا:’’فانہ لم یمت ولکن بہ جراحاشدیدافلماکان من اللیل لم یصبرعلی الجراح فقتل نفسہ فاخبرالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بذلک فقال:اللہ اکبراشھدانی عبداللہ ورسولہ‘‘یارسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم! وہ شخص ابھی مرانہیں تھا،لیکن بہت زخمی تھا،رات کے آخری حصہ میں وہ زخم کی تکلیف برداشت نہ کرسکااوراس نے خودکشی کرلی،رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کواس کی خبرپہنچی، توآپ نے فرمایا:اللہ اکبر!میں گواہی دیتاہوں کہ میں اللہ کابندہ اوراس کارسول ہوں۔

(الصحیح لمسلم،کتاب الایمان،باب بیان غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ،ج01،ص72،مطبوعہ  کراچی)

    مذکورہ بالاتمام روایات سے معلوم ہواکہ مریض یازخمی شخص کے لیے قطعاجائزنہیں کہ وہ بیماری یاتکلیف کی شدت سے نجات پانے کے لیے کسی ایسے فعل کاارتکاب کرے ،جوموت کی طرف لے جانے والاہو، بلکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نےتو تکلیف کی بناپرموت کی تمناکرنے سے بھی منع فرمایا،جیساکہ صحیح بخاری میں ہے:”قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم:لا یتمنین أحدکم الموت من ضر أصابہ‘‘ترجمہ:نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:تم میں سے کوئی بھی شخص تکلیف میں مبتلاہونے کی وجہ سے موت کی تمنانہ کرے۔

(صحیح البخاری،کتاب المرضی،باب تمنی المریض الموت،ج02،ص847،مطبوعہ  کراچی )

    مذکورہ بالاروایت کے تحت علامہ بدرالدین عینی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:”وھویشمل المرض وغیرہ من انواع الضرر “ ترجمہ :یہ مرض کوبھی شامل ہے اورمرض کے علاوہ دیگرتکلیف دہ اقسام کوبھی شامل ہے۔

(عمدۃ القاری،ج21،ص335،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

    قتل کرنا اور قتل کا حکم دینا دونوں حرام ہیں۔ قرآن میں فرمایا:  ﴿ وَلَاتَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ ﴾ترجمہ کنزالایمان:اورجس جان کی اللہ نے حرمت رکھی اسے ناحق نہ مارو۔

        (القرآن،سورۃ الانعام،آیت151)

    شعب الایمان میں ہے:’’یجلس المقتول یوم القیامۃ، فإذا مر الذی قتلہ قام فأخذہ، فینطلق فیقول:یا رب سلہ لم قتلنی؟ فیقول:فیم قتلتہ؟ فیقول:أمرنی فلان، فیعذب القاتل والآمر ‘‘ترجمہ:حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:قیامت کے دن مقتول بیٹھاہوگا،جب اس کاقاتل گزرے گا،تووہ اسے پکڑکراللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرے گا:’’اے میرے رب!عزوجل تواس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟اللہ تعالی قاتل سے فرمائے گا:’’تونے اسے کیوں قتل کیا:قاتل عرض کرے گا:مجھے فلاں شخص نے حکم دیاتھا،چنانچہ قاتل اورقتل کاحکم دینے والے دونوں کوعذاب دیاجائے گا۔‘‘

(شعب الایمان،باب تحریم النفوس والجنایات علیھا،ج07،ص246،مطبوعہ ریاض )

    قتل کرنے کاحکم دینے کے حرام ہونے کے بارے میں شعب الایمان میں ہے:’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:قسمت النار سبعین جزئا للآمر تسعۃ وستین، وللقاتل جزئا ‘‘ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:آگ کوسترحصوں میں تقسیم کیاگیاہے ۔ 69حصے قتل کاحکم دینے والے کے لیے اورایک حصہ قاتل کے لیے ہے۔

(شعب الایمان،باب تحریم النفوس والجنایات،ج07،ص245،مطبوعہ ریاض )

    بلکہ مریض کوچاہیے کہ وہ تکلیف پرصبرکرے کہ یہ بھی اللہ تعالی کی طرف سے ایک عطیہ ہے،جوگناہوں کومٹانے اورآخرت میں درجات کی بلندی کاسبب ہے،جیساکہ صحیح بخاری میں ہے؛’’عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:ما یصیب المسلم، من نصب ولا وصب، ولا ھم ولا حزن ولا أذی ولا غم، حتی الشوکۃ یشاکھا، إلا کفر اللہ بھا من خطایاہ‘‘ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمان پرجوبھی تھکاوٹ آتی ہے یابیماری آتی ہے یاپریشانی آتی ہے یاغم آتاہے یاکوئی تکلیف آتی ہے اورصدمہ پہنچتاہے،حتی کہ اس کوجوکانٹابھی چبھتاہے،اللہ تعالی اس کے سبب سے اس کے گناہوں کاکفارہ کردیتاہے۔

(صحیح البخاری،کتاب المرضی،باب ماجاء فی کفارۃ المرض،ج02،ص843،مطبوعہ کراچی)

    ہرمرض کی دوا موجودہونے کے بارے میں جامع ترمذی میں ہے:”یاعباد اللہ تداووا،فان اللہ لم یضع داء الا وضع لہ شفاء “ ترجمہ:اے اللہ کے بندو!علاج کیاکرو،کیونکہ اللہ تعالی نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری، جس کی دوا نہ ہو۔

(جامع ترمذی،ابواب الطب،باب ماجاء فی الدواء،صفحہ467،مطبوعہ لاھور)

    کسی کوقتل کرنے پرمجبورکرنے کے بارے میں ہدایہ میں ہے:”وان اکرہ بقتل علی قتل غیرہ لم یسعہ ان یقدم علیہ ویصبر حتی یقتل فان قتلہ کان آثمالان قتل المسلم ممالایستباح لضرورۃ ما“ترجمہ:اوراگرایک شخص نے  دوسرے کوکسی کے قتل کرنے پر مجبورکیا،تواس کے لئے قتل پراقدام کرنا ، جائزنہیں،وہ صبرکرے یہاں تک کہ اسے قتل کردیاجائے،لہذااگراس نے قتل کردیاتوگنہگارہوگا،کیونکہ مسلمان کوقتل کرناکسی بھی ضرورت میں جائزنہیں۔                     

(ھدایہ مع البنایہ،ج10،ص66،مطبوعہ  کوئٹہ)

    بنایہ میں ہے:”قال لغیرہ ان لم تقتل فلانالاقتلنک لایسعہ الاقدام علی قتلہ “ترجمہ:ایک نے دوسرے سے کہاکہ اگرتم نے فلاں کوقتل نہ کیا،تومیں تمہیں قتل کردوں گا،تواس کے لئے فلاں کوقتل کرنے پراقدام کرنا،جائزنہیں۔                                   

(بنایہ،ج10،ص66،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم