رشوت کے تحفے کا حکم

مجیب:مولانا ساجد صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جولائی 2017

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے رشوت کے طور پر بکر کو کوئی تحفہ دیا لیکن اب زید نے اس گناہ سے توبہ کرلی تو کیا جو گفٹ دیا تھا وہ واپس لینا ضَروری ہے یا یہ معاف بھی کر سکتا ہے؟ وہ گفٹ باقی موجود ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     رشوت کے طور پر جو چیز دی جائے شرعی طور پر لینے والا اس کا مالک نہیں بنتا بلکہ اس کا مالک وہی رہتا ہے جس کی وہ چیز تھی۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بکر جس نے رشوت لی ہے اس پر فرض ہے کہ وہ زید کی چیز اسے لوٹا دے اور زید کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنی چیز کا تقاضا کرے۔ ہاں اگر زید اب توبہ کرچکا ہے اور لینے والے کو وہ چیز معاف کرنا چاہتا ہے تو اس کی  دو صورتیں ہیں:(1)اگر بکر وہ چیز ہلاک و تَلَف کرچکا ہے تو اب زید مُعاف کرسکتا ہے اور معاف کرنے کا مطلب یہ بنے گا کہ تَلَف کرنے کی وجہ سے بکر کے ذمہ پر چیز کا جو تاوان لازم آیا تھا  اس کا مطالبہ ساقط و معاف ہوگیا۔ (2)اور اگر وہ چیز بکر کے پاس باقی ہے تو اب زید کے معاف کرنے سے بھی اس چیز کا مالک بکر نہیں بنے گا بلکہ وہ چیز بدستور زید  کی رہے گی کیونکہ عین چیز کو معاف نہیں کیا جاتا بلکہ معاف تو اس کو کیا جاتا ہے جو کسی کے ذمّہ پر لازم ہو۔ لہٰذا اب اگر زید وہ چیز بکر کی ملکیت میں دینا چاہتا ہے تو وہ نئے سِرے سے اس کو ہِبہ کرے یعنی بطورِ گفٹ دے تو بکر کے قبول کرتے ہی وہ چیز اب بکر کی ملکیت میں چلی جائے گی۔

     تنبیہ: یہ واضح رہے کہ اس نیت سے رشوت لینا یا دینا کہ بعد میں ہبہ کا یہ طریقہ اپنا لیں گے یہ رشوت کو جائز نہ کردے گا بلکہ رشوت حرام ہی رہے گی اور ہبہ کے اس طریقے سے گناہ سے چھٹکارہ نہیں بلکہ بعض صورتوں میں یہ ہبہ بھی رشوت ہی کہلائے گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم