Ailania Gunah Ki Ailania Toba Ki Wazahat

اعلانیہ گناہ کی اعلانیہ توبہ کی وضاحت

مجیب: ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری

فتوی نمبر: WAT-1033

تاریخ اجراء:       03صفرالمظفر1444 ھ/31اگست2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   حدیثِ پاک میں ہے کہ اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ ہوتی ہے ، تو میں نے تو بہت سے لوگوں کے سامنے گناہ کیے ہوں گے جیسے گھر والے ، رشتہ دار ، دوست ۔ میں سب کے سامنے توبہ نہیں کر پاؤں گا اور اگر کسی کے سامنے توبہ کروں ، تو کیا مجھے سب گناہوں کی الگ الگ توبہ کرنی ہو گی یا سب کی ایک ساتھ ؟ مثلا یوں کہ میں نے سب گناہوں سے توبہ کی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   توبہ کی شرائط یعنی گناہ و جرم کا اعتراف ، اس پر شرمندہ ہونا اور آئندہ نہ کرنے کا پکا ارادہ و عزم ہونا ، نیز اگر وہ گناہ قابلِ تلافی ہو ، تو اس کی تلافی کرنا مثلا قضا نماز روزے ادا کرنا ، کسی کی حق تلفی کی ہے ، تو اس کا حق ادا کرنا یا اس سے معاف کروانا ، توبہ کے لیے یہ سب کرنا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ کرنا بھی ضروری ہے ۔

    اعلانیہ توبہ کا مطلب یہ ہے کہ جن افراد کے سامنے گناہ کیا تھا ،ان کے سامنے توبہ کرے ،اگرایساممکن نہیں تو انہیں اپنی توبہ کے متعلق بتا دے یا اگر وہ بہت زیادہ تعداد میں ہوں اور سب کو اپنی توبہ کی اطلاع کرنا ، ممکن نہ ہو ، تو انہی کی مثل کثیر افراد کے سامنے اپنی توبہ کا اظہار کر دےیا یہ خبر پہنچا دے کہ میں نے اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر لی ہے ۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص اپنے اعلانیہ گناہ سے صرف سری توبہ کرے اور اعلانیہ توبہ نہ کرے ، تو چونکہ ظاہری اعتبار سے ایسے شخص کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے توبہ نہیں کی ہے ، تو اس وجہ سے دنیا میں اس کا حکم توبہ کرنے سے پہلے والا ہی رہے گا ۔

   نیزیہ یادرہے کہ اس کے لیے ہرہرگناہ کاعلیحدہ علیحدہ ذکرکرناضروری نہیں فقط اتناکہنابھی کافی ہے کہ میں سارے گناہوں سے توبہ کرتاہوں اورخبردینے کی صورت میں یہ کہہ دے کہ میں نے سارے گناہوں سے توبہ کرلی ہے ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے : ”تحقیقِ حق یہ ہے کہ وہ گناہ جو خلق پر بھی ظاہر ہو ، جس طرح خود اس کے لیے دو تعلق ہیں ، ایک بندے اور خدا میں کہ اللہ عز وجل کی نافرمانی کی ، اس کا ثمرہ حق جل و علا کی معاذ اللہ ناراضی ، اس کے عذابِ منقطع یا ابدی کا استحقاق ۔ دوسرا بندے اور خَلق (یعنی مخلوق) میں کہ مسلمانوں کے نزدیک وہ آثم و ظالم یا گمراہ ، کافر بحسبِ حیثیتِ گناہ ، ٹھہرے اور اس کے لائق سلام و کلام و تعظیم و اکرام و اقتدائے نماز وغیرہا امور و معاملات میں اس کے ساتھ اُنہَیں برتاؤ کرنا ہو ، یوہیں اس سے توبہ کے لیے بھی دو رُخ ہیں ، ایک جانبِ خدا ، اس کا رکنِ اعظم، بصدقِ دل اُس گناہ سے ندامت ہے ۔۔۔ یعنی وہی سچی صادقہ ندامت کہ بقیہ ارکانِ توبہ کو خود مستلزم ہے ، اُسی کا نام توبۃ السر ہے ۔ دوسرا جانبِ خلق کہ جس طرح اُن پر گناہ ظاہر ہوا اور اُن کے قلوب میں اُس کی طرف سے کشیدگی پیدا ہوئی اور معاملات میں اس کے ساتھ اس کے گناہ لائق اُنہَیں احکام دئیے گئے ، اُسی طرح ان پر اس کی توبہ و رجوع ظاہر ہو کہ ان کے دل اس سے صاف ہوں اور احکام حالتِ براءت کی طرف مراجعت کریں ، یہ توبۂ اعلانیہ ہے ۔ توبۂ سِر سے تو کوئی گناہ خالی نہیں ہو سکتا اور گناہ علانیہ کے لیے شرع نے توبۂ علانیہ کا حکم دیا ہے ۔۔۔۔۔ جن جن لوگوں کے سامنے گناہ کیا ہے ان سب کے مواجدہ میں توبہ کرے مگر یہ کثرت مجمع کی حالت میں مطلقا اور بعض صورتیں ویسے بھی حرج سے خالی نہیں اور حرج مدفوع بالنص ہے تاہم اس قدر ضرور چاہئے کہ مجمع توبہ مجمع گناہ کے مشابہ ہو۔۔۔ ملخصا ، الخ“(فتاوی رضویہ ، ج21 ، ص 141۔142 ، 145،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم