ALLAH Pak Se Wada Kar Ke Tor Dene Ka Hukum?

اللہ پاک سے وعدہ کر کے توڑ دینے کا حکم ؟

مجیب:مولانا ساجد صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:UK35

تاریخ اجراء:11صفرالمظفر1441ھ/10اکتوبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگرکسی شخص  نے یہ الفاظ بول کر اللہ تعالیٰ سےوعدہ کیاکہ ”یااللہ عزوجل!میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ فلاں گناہ نہیں کروں گا“لیکن اُس نے دوبارہ اُس گناہ کا ارتکاب کیا،تواُس کے ليے کیا حکم ہو گا؟کیا اسے کفارہ دینا ہوگا؟

سائل:ڈاکٹر ایوب عطاری(اٹک)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صورت مسئولہ میں اس شخص نے اگر قسم کا کوئی لفظ نہیں بولا تھا، فقط” وعدہ کرتا ہوں الخ“ کہا تھا ، تو یہ قسم نہیں ہوئی بلکہ اللہ عزوجل سے وعدہ ہوا،  لہٰذااس  کے خلاف کام کرنے پر کوئی کفارہ  تو لازم نہیں ہوا ، لیکن یہ شخص سخت گنہگار ہواکہ ایک تو یہ کام ہی گناہ  تھا اور دوسرا یہ اللہ عزوجل سے وعدہ خلافی بھی ہوئی اور بلا شبہ اللہ عزوجل سے وعدہ کر کے پھر جانا بھی بہت سخت ہے اور اس پر شدید وعید  آئی ہے ، لہٰذا اس شخص کو چاہیے کہ وہ سچے دل سے توبہ کرے اور آئندہ تمام گناہوں سے اور بالخصوص  اس گناہ  سے بچتا رہے۔

    وعدے کے لفظ سے یمین (قسم) منعقد نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس لفظ میں نہ تو لغوی اعتبار سے قسم کے معنی پائے جاتے ہیں ، نہ شرع نے اس کو قسم کے الفاظ سے قرار دیا اور نہ عرف  میں قسم کے ليے یہ استعمال ہوتا ہے، لہٰذا یہاں کوئی ایسا لفظ ہی نہیں بولا گیا ، جس سے یمین منعقد ہو اوریمین اپنے مخصوص الفاظ کے بغیر منعقد نہیں ہو سکتی ۔ چنانچہ العنایہ میں ہے :”وركنها اللفظ الذي ينعقد به اليمين“ترجمہ: قسم کا رکن وہ لفظ ہے جس کے ساتھ قسم منعقد ہو جاتی ہے۔

(العنایہ،کتاب الایمان،  جلد5، صفحہ59، دار الفکر،بیروت)

    اور اللہ عزوجل  سے وعدہ کرکے پھر جانے کے متعلق امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں ” اﷲ واحد قہار سے وعدہ کرکے پھرنا بہت سخت ہے اوراس پر شدید وعید،فَاَعْقَبَہُمْ نِفَاقًا فِیۡ قُلُوۡبِہِمْ اِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہٗ بِمَاۤ اَخْلَفُوا اللہَ مَا وَعَدُوۡہُ وَبِمَا کَانُوۡا یَکْذِبُوۡنَ(ترجمہ کنز الایمان: تو اس کے پیچھے اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق رکھ دیا اس دن تک کہ اس سے ملیں گے بدلہ اس کا کہ انہوں نے اللہ سے وعدہ جھوٹا کیا اور بدلہ اس کا کہ جھوٹ بولتے تھے۔)‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد16،صفحہ481،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

    مزید ایک جگہ سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:”اگر اپنی قربانی کی کھال مدر سہ میں دینے کو کہی تھی پھر نہ دی تو بیجاہے،مگر چنداں الزام نہیں ،جبکہ کسی عذر شرعی سے ایسا کیا ہو،ورنہ اﷲعزوجل سےوعدہ خلافی ہے ، چنانچہ نتیجہ بہت شدید ہے۔ ‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ551،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

    واضح رہے کہ یہاں لفظ ”وعدہ“ کو  لفظ ”عھد “ پر قیاس کرتے ہوئے یمین کا حکم ثابت نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ لفظ وعدہ میں تو یمین کے معنی نہیں پائے جاتے جبکہ لفظ” عھد “ عربی لغت میں یمین کے معنی میں آتا ہے اور شرعاو عرفا بھی  یمین کے معنی میں یہ مستعمل ہے ۔ اس ليے فقہاء کرام نے ”علیَّ عھد اللہ“ وغیرہ  الفاظ  کو یمین قرار دیا ہے چنانچہ لفظ عھد کے متعلق تاج العروس میں ہے :” العهد (الموثق. واليمين) يحلف به ا لرجل، والجمع: عهود، تقول: علي عهد الله وميثاقه لأفعلن كذا“ترجمہ: العهد کا مطلب مضبوط معاہدہ اور یمین ہے، اس لفظ کے ذریعے آدمی حلف اٹھاتا ہے اور اس کی جمع عھود ہے۔ (جیسے)آپ کہتے ہیں : مجھ پر اللہ کا عہد اور اس کا میثاق ہے کہ میں ایسا ضرور کروں گا۔

(تاج العروس، جلد8، صفحہ454، دار الھدایہ)

    یونہی الصحاح تاج اللغۃ اور لسان العرب میں بھی العهد کا معنی  : امان، یمین اور موثق لکھا گیا ہے۔

(لسان العرب، جلد3، صفحہ311، دار صادر، بیروت)

(الصحاح تاج اللغة ، جلد2، صفحہ515، دار العلم للملایین، بیروت)

    شرعااور عرفا بھی لفظ عھد  یمین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، اس کی صراحت فقہاء کرام نے کی ہے اور آیت مبارکہ بطور دلیل ذکر کی چنانچہ البحر الرائق میں ہے : ”وقد استعمل في اليمين لقوله تعالى{وأوفوا بعهد الله إذا عاهدتم}[النحل: 91] الآية فقد جعل العهد في القرآن يمينا كما ترى“ترجمہ:لفظ عہد یمین کے معنی میں استعمال ہوتا ہےکیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے : ”اور اللہ کا عہد پورا کرو  جب قول باندھو“ الآیۃ، اللہ عزوجل نے قرآن میں عہد کو یمین قرار دیا ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا۔

(البحر الرائق، کتاب الاَیمان، جلد4، صفحہ308، دار الکتاب الاسلامی)

    فتح القدیر،رد المحتار اور البحر الرائق وغیرہ میں ہے واللفظ للبحر:” وأطلقه فشمل ما إذا لم ينو لغلبة الاستعمال للعهد والميثاق في معنى اليمين فينصرفان إليه “ترجمہ:مصنف نے مسئلہ مطلق بیان کیا لہذا یہ شامل ہوگا اس صورت کو بھی جس اس نے یمین کی نیت نہ کی ہو کیونکہ عہد اور میثاق یہ یمین کے معنی میں غالب الاستعمال ہیں، لہذا یہ دونوں الفاظ اسی معنی کی طرف پھیرے جائیں گے۔

(البحر الرائق، کتاب الایمان، جلد4، صفحہ308، دار الکتاب الاسلامی)

    ان عبارات سے معلوم ہوا کہ لفظ عهد میں فی نفسہٖ یمین کے معنی پائے جانے کے ساتھ ساتھ  شرع و عرف میں اس کا یمین کے معنی میں استعمال بھی ہے جبکہ لفظ وعدہ کی یہ کیفیت نہیں ، لہٰذا وعدہ کرنے کو یمین نہیں کہا جا سکتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ امام اہل سنت علیہ الرحمۃ نے اپنے متعدد فتاوی میں اللہ عزوجل سے وعدہ خلافی کی مذمت بیان فرمائی ، لیکن اس کو یمین قرار دے کر اس پر کفارے کا حکم بیان نہیں فرمایا ۔

    نوٹ:

    اس مسئلے سے متعلق پہلے ایک فتوی وائرل کیا گیا تھا کہ ’’اللہ سے وعدہ کرنا “ یمین (قسم )کے حکم میں ہے اور اس کے خلاف  کرنے پر کفارہ بھی لازم ہوگا ، لیکن پھر تحقیق کرنے پر نتیجہ سامنے آیا کہ یہ یمین نہیں ہے اور اس کے خلاف کرنے پر کفارہ بھی لازم نہیں ہوگا ، لہٰذا اُس پہلے والے فتوے سے ہم رجوع کرتے ہیں ۔ اللہ کریم ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم