Aurat Ka Saya Parne Se Bimar Hone Ka Aqeedah Rakhna

عورت کا سایہ پڑنے سے بیمار ہونے کا اعتقاد رکھنا

مجیب:مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1686

تاریخ اجراء:24شوال المکرم1445 ھ/03مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہمارے گاؤں کی کئی عورتیں یہ کہتی ہیں کہ اگر کسی عورت کو کوئی مخصوص بیماری ہو اور وہ نہا کرگیلے بالوں کے ساتھ نکلے اور اس کا سایہ کسی جانور یا انسانوں پر پڑ جائے، تو وہ بھی بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے، تو ایسا اعتقاد کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کا سایہ پڑنے کی وجہ سے بیمار ہوجانے کی بات بدشگونی کے قبیل سے ہے  اور اسلام میں بدشگونی جائز نہیں ۔ لہٰذا گیلے بالوں والی بیمار عورت کاسایہ  پڑنے سے بیماری کی بدشگونی ہرگز نہ لی جائے ۔

    نیز یہ بھی ذہن میں  رہے کہ بیماری کا اُڑ کر لگنا باطل ہے ۔ البتہ بیماری کے جراثیم کسی دوسرے کو لگ جانا ممکن ہے اور سائنس بھی یہی کہتی ہے۔ مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ بیماری متعدی نہیں ہوتی ، البتہ اس بیماری کے جراثیم متعدی ہوسکتے ہیں ، لیکن بیماری کے جراثیم متعدی ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جس شخص کو یہ جراثیم لگے وہ بیمار ہوگا ہی ہوگا ، بلکہ ایک احتمال ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خواہ جراثیم متعدی ہوں یا نہ ہوں حکمِ الٰہی ہو گا تو ہی بیماری لگے گی۔ یہی وجہ تھی کہ نبی اکرم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  نے جذام کے ایک مریض کےساتھ کھانابھی کھایا تاکہ لوگوں کو علم ہوجائے کہ مرض  خود بخود اُڑ کر دوسرے کو نہیں لگتا۔البتہ کمزور  اعتقاد والو ں کو چاہیےکہ وبائی مرض میں مبتلا شخص سےملنےسےبچیں اور اس سے دور رہیں کیونکہ اگر اسے بھی وہی بیماری ہو گئی تو شیطان وسوسہ ڈالے گاکہ  اس سےبیماری اُڑ کر لگی ہےجوکہ باطل عقیدہ ہے،حدیث ِ پاک کےبرخلاف ایساوسوسہ آنابہت خطرناک ہے۔

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:”اہلِ عرب کا عقیدہ تھا کہ بیماریوں میں عقل و ہوش ہے جو بیمار کے پاس بیٹھے اسے بھی اس مریض کی بیماری لگ جاتی ہے۔ وہ پاس بیٹھنے والے کو جانتی پہچانتی ہے یہاں اسی عقیدے کی تردید ہے۔موجودہ حکیم ڈاکٹر سات بیماریوں کو مُتَعَدِّی مانتے ہیں: جذام،خارش،چیچک،موتی جھرہ،منہ کی یا بغل کی بو،آشوبِ چشم،وبائی بیماریاں اس حدیث میں ان سب وہموں کو دفع فرمایا گیا ہے۔اس معنیٰ سے مرض کا اُڑ کر لگنا باطل ہے مگر یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بیمار کے پاس کی ہوا متعفن ہو اور جس کے جسم میں اس بیماری کا مادہ ہو وہ اس تَعَفُّنْ سے اثر لے کر بیمار ہوجائے اس معنیٰ سے تَعَدِّی ہوسکتی ہے اس بنا پر فرمایا گیا کہ جذامی سے بھاگو لہٰذا یہ حدیث ان احادیث کے خلاف نہیں۔ غرضکہ عدویٰ یا تَعَدِّی اور چیز ہے کسی بیمار کے پاس بیٹھنے سے بیمار ہوجانا کچھ اور چیز ہے۔“(مراٰۃ المناجیح ،جلد6، صفحہ 194، مطبوعہ:لاھور)

   امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اس دوراندیشی سے کہ مبادا اسے کچھ پیداہو اور ابلیس لعین وسوسہ ڈالے کہ دیکھ بیماری اُڑ کرلگ گئی اور اب معاذاﷲ اس امر کی حقانیت اس کے خطرہ میں گزرے گی جسے مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم باطل فرماچکے،یہ اس مرض سے بھی بدترمرض ہوگا ۔ان وجوہ سے شرعِ حکیم ورحیم نے ضعیف الیقین لوگوں کوحکم استحبابی دیاہے کہ اس سے دور رہیں۔اور کامل ایمان بندگان خدا کے لئے کچھ حرج نہیں کہ وہ ان سب مفاسد سے پاک ہیں۔ خوب سمجھ لیاجائے کہ دور ہونے کاحکم ان حکمتوں کی وجہ سے ہے نہ یہ کہ معاذاﷲ بیماری اُڑ کر لگ جائے گی، اسے تو اﷲ ورسول رَد فرماچکے جل جلالہ وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم۔  اقول:  (میں کہتاہوں) پھر ازانجاکہ یہ حکم ایک احتیاطی استحبابی ہے واجب نہیں۔ “(فتاوی رضویہ،جلد24، صفحہ 281۔282، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم