Farzi Mazar Banana Aur Wahan Asal Mazar Wale Mamlaat Karna

فرضی مزار بنانا اور وہاں اصل مزار والے معاملات کرنا

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2855

تاریخ اجراء: 01محرم الحرام1445 ھ/08جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   بعض  ممالک میں اس طرح دیکھا گیا ہے کہ غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ  کا فرضی  مزار تعمیر کیا جاتا ہے اور وہاں اصل مزار والے  معاملات کئے جارہے ہوتے ہیں جیسے  وہاں آکر  فاتحہ خوانی  کرنا،دعا مانگنا ،اگر بتی ،لوبان جلانا وغیرہ ،اور   لوگوں کو پتا ہوتا ہے کہ اصل مزار بغداد شریف میں ہے،وہ اس کو اصل مزار نہیں  مانتے،تو کیا اس طرح کسی بزرگ کا فرضی مزار بنانا اوراس کے ساتھ اصل مزار والے معاملات کرنا  شرعاً جائز ہے؟شرعی رہنمائی فرمادیجئے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولیائے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مزارات کی حاضری ،وہاں پر فاتحہ خوانی اور ان کے وسیلے سے دعائیں کرنا، بیشک باعث سعادت ہے اور   یہ سب جائز و مستحسن اعمال ہیں،لیکن غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ  یا  کسی  بھی بزرگ  کی فرضی مزار بنا نا ، اُسے مزار والی حیثیت دے کر  اس کے ساتھ اصل  مزار والے معاملات کرنا، جیسےاس کی زیارت کیلئے جانا ، وہاں  فاتحہ خوانی کرنا،دعا مانگنا، عرس کرنا، پھول ڈالنا،چادر چڑھانا، یہ  سارے کام شرعاً   ناجائز و حرام اور گناہ  ہیں، ایسے فرضی مزارات  بنانے والے ،اس کیلئے چندہ دینے والے ، اس کے ساتھ اصل مزار جیسے معاملات کرنے والے،اس  جلسہ میں  شرکت کرنے والے سب لوگ سخت گنہگار ہیں،سب پر توبہ لازم ہے۔اِن سب کاموں کا دین اسلام اور اہلسنت سے کوئی تعلق نہیں ،یہ محض لوگوں کی اپنی خرافات اور ایجادات ہیں ،پھر  درحقیقت یہ  فرضی مزارات بنانا،اور وہاں اس طرح کے اصل مزار والے معاملات کرنا،یہ سب  کچھ دین اور مزارات و اولیائے کرام  سے   عقیدت و محبت   کے نام   پر ،   مسلمانوں سے چندہ بٹورنے کا    ذریعہ  اور  دھوکہ ہے ۔ مسلمانوں   پر ایسے  تمام   غیر شرعی  معاملات اور  خرافات  سے بچنا    لازم  وضروری ہے۔

   فرضی مزار بنانے اور اس کے ساتھ اصل مزار والے معاملات  سے متعلق  سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن  سے فتاوی رضویہ میں سوال ہوا کہ کسی ولی اﷲ کا مزار شریف فرضی بنانا اور اس پر چادر وغیرہ چڑھانا، اور اس پر فاتحہ پڑھنا اور اصل مزار کا سا  ادب ولحاظ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

   آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا:’’فرضی مزار بنانا او راس کے ساتھ اصل سا معاملہ کرنا،ناجائز وبدعت ہے‘‘۔(اسی کے بعد  ایک اور سوال کے جواب میں   ارشاد  فرمایا)’’قبر بلا مقبور کی طرف بلانا اور اس کے لیے وہ افعال کرانا گناہ ہے۔ ۔۔اس جلسئہ زیارت قبر بے مقبورمیں شرکت جائز نہیں ۔ (فتاوی رضویہ، جلد9، صفحہ425،426 ، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   فتاوی فیض الرسول  میں فقیہ ملت حضور  مفتی جلال الدین احمد امجدی  رحمۃ اللہ علیہ    ایک سوال کے جواب میں  فرماتے ہیں : ’’مصنوعی قبر کی زیارت حرام  ہے اور حدیث شریف میں لعنت آئی ہے۔فتاویٰ عزیزیہ میں ہے: لعن اللہ من زار بلا مزار(یعنی بلا مزار کے زیارت کرنے والے  پر اللہ  عزوجل نے لعنت فرمائی ہے)۔۔۔مسلمانوں کو ایسی خرافات باتوں سے بچنا لازم ہے اگر نہیں بچیں گے تو سخت گنہگار، مستحق عذاب نار ہو ں گے‘‘۔(فتاوی فیض الرسول،ج 2،ص 543،شبیر برادرز،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم