Gali Ke Jawab Mein Gali Dena

گالی کے جواب میں گالی دینا

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2913

تاریخ اجراء: 22 محرم الحرام1446 ھ/29جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی شخص کسی کو گالی دے ،تو  جواب میں سامنے والا بھی اس کو گالی دے ،تو سامنے والے شخص کا  جواباً  گالی دینے   کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   گالی کے الفاظ مختلف طرح کے ہوتے ہیں ،بعض گالیاں  انتہائی  فحش قسم کی ہوتی  ہیں،اور بعض فحش تو نہیں ہوتیں مگر اس میں  سامنے والے  کو بُرا بھلا کہنا پایا جاتا ہے۔فحش گالیاں جیسے فی زمانہ ایک دوسرے کو  جھگڑے وغیرہ کسی موقع پر جو گالیاں   دی جاتی ہیں ،تو وہ عام طور پر فحش ہی ہوتیں ہیں ،  ایسی گالیاں   ابتدا ءً    دینا ،یا  اگر سامنے والے نے دی ہو تو اسے  جواب کے طور پر  دینا، شرعاً   ناجائز و گناہ  ہے ، اس کی کسی صورت اجازت نہیں ،البتہ  وہ گالی جو  کہ فحش   نہ ہو،بلکہ  اس میں صرف   سامنے والے کو بُرا بھلا کہنا پایا جائے ،تو  ایسی گالی بھی ابتدا ء کسی مسلمان کو  دینا ،  ناجائز و گناہ ہے کہ اس میں دوسرے مسلمان کو ایذا  و تکلیف پہنچانا ہے  جو کہ جائز نہیں،البتہ    اگر کسی نے ابتدا ءً      ایسی گالی دی   جو فحش نہیں ،مگر اس میں   سامنے والے کو برا بھلا کہنا پایا گیا  ہے ،تو  اگر  سامنے والا بھی اسی کے مطابق  جواب میں اُسے     بُرا بھلا کہہ    دے تو یہ اگرچہ گناہ نہیں  کہ یہ اپنے  اوپر ہونے والے  ظلم  کا  بدلہ لینا ہے ، جس کی شرعاً اجازت ہے،اور  حدیث مبارکہ کے مطابق  اس صورت میں دونوں کی برائیوں      کا وبال  ابتدا کرنے والے پر ہوگا،البتہ     اس موقع پر بھی     بہتر   و افضل  یہ ہے کہ برائی کا بدلہ  برائی کے ساتھ دینے کے بجائے  سامنے والے    کے ساتھ بھلائی سے پیش آئے ،اُس کی بات سے   درگزر کرے اور صبر کرتے ہوئے  اُسے معاف کردے۔عام طور پر  دیکھا یہی جاتا ہے کہ  جب گالی کے جواب میں گالی دی جاتی ہے،تو جھگڑا  مزید بڑھ جاتا ہے،جبکہ اگر گالی سن کر دوسرا شخص خاموش رہے اور صبر کرے تو جھگڑا  وہیں پر ختم ہوجاتا ہے ،لہذاایسی صورتحال میں صبر سےہی   کام لیا جائے ۔

   گالی دینے کے متعلق،صحیح بخاری شریف کی حدیث پاک میں ہے:”أن النبي صلى الله عليه و سلم قال: سباب المسلم فسوق “ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ تعالی  علیہ و آلہ و سلم نےارشاد  فرمایا :مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے۔ (صحيح البخاري ، کتاب الایمان، ج 1، ص 19،رقم الحديث :48،دار  طوق النجاۃ)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوٰی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:”کسی مسلمان جاہل کو بھی بے اذن شرعی گالی دیناحرام قطعی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:سباب المسلم فسوق رواہ البخاری ومسلم۔“(فتاوٰی رضویہ، ج  21، ص 128،127، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   ایک دوسرے مقام  پر فتاوٰی رضویہ میں ہی  فرماتے ہیں:” کسی مسلمان کو بلاوجہ شرعی ایذادینا حرام ہے اور گالی دینا سخت حرام ہے اور بعض گالیاں تو کسی وقت حلال نہیں ہوسکتی اور ان کا دینے والا سخت فاسق اور سلطنت اسلامیہ میں اسی (80)کوڑوں کا مستحق ہو تا ہے ، ان سے ہلکی گالی بھی بلاوجہ شرعی حرام ہے۔ “(فتاوٰی رضویہ، ج 6، ص  538، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   آپس میں  گالی دینےوالے دو لوگوں کی  برائی کا  وبال ابتدا کرنے والے پر ہوگا،چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث  پاک ہے:’’عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:المستبان ما قالا فعلى البادئ، ما لم يعتد المظلوم‘‘ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آپس میں گالی دینے والے  دو آدمی جو کچھ کہیں ،تو  اس  کا گناہ ابتدا کرنے والے پر ہے جب تک کہ مظلوم حد سے نہ بڑھے۔(صحیح مسلم،ج 4،ص0 200، رقم الحدیث: 2587،دار إحياء التراث العربي، بيروت)

   کسی کو بدلے کے طور  بُرا بھلا کہنا اگرچہ  جائز ہے ،مگر بہتر یہی ہے کہ برائی کابدلہ برائی سے نہ لے اور معاف کردے،چنانچہ اس حدیث کی شرح میں شرح صحیح مسلم  للنووی میں ہے:’’وفي هذا جواز الانتصار ولا خلاف في جوازه وقد تظاهرت عليه دلائل الكتاب والسنة قال الله تعالى ولمن انتصر بعد ظلمه فأولئك ما عليهم من سبيل۔۔۔ومع هذا فالصبر والعفو أفضل قال الله تعالى ولمن صبر وغفر إن ذلك لمن عزم الامور‘‘ترجمہ:اس حدیث میں بدلہ لینے کا جواز ہے ،اور اس کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں،اور اس پر کتاب و سنت سے دلائل ظاہر و باہر ہیں،اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:اور بے شک جس نے اپنے اوپر  ہونے والے ظلم کا بدلہ لیا ان کی پکڑ کی کوئی راہ نہیں(یعنی اس پر کوئی سزا نہیں)۔۔۔(مگر) اس کے باوجود صبر کرنا  اور معاف کردینا افضل ہے،اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:اور بیشک جس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے ہے۔ (شرح النووی  علی مسلم ،ج 16،ص 141، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ  مرآۃ  المناجیح میں فرماتے ہیں:’’یعنی دونوں کی برائیوں کا وبال ابتداءکرنے والے پر ہوگا جب کہ دوسرا زیادتی نہ کرجاوے صرف اگلے کو جواب دے۔خیال رہے کہ گالی کے بدلےمیں گالی نہ دینا چاہیے کہ گالی فحش ہے جس سے زبان اپنی ہی خراب ہوتی ہے۔سبّ کے معنی ہیں برا کہنا ،نہ کہ گالی دینا ، گالی دینے والے سے بدلہ اور طرح لو، اُسے گالی نہ دو ،اگر کتا کاٹ لے تو تم اسے کاٹو مت بلکہ لکڑی سے مار دو ،لہذا حدیث واضح ہے  اس میں گالیاں بکنے کی اجازت نہ دی گئی۔‘‘ (مرآۃ  المناجیح،ج 6،ص 449،نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم