Gheebat Ke Gunah Se Tauba Ka Tarika

غیبت کے گناہ سے توبہ کا طریقہ

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12313

تاریخ اجراء:        27ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/27جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید دوسروں کی غیبت کرتا رہا ہے اب اسے اس گناہ کا احساس ہوا ہے اور وہ اس گناہ سے توبہ کرنا چاہتا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید نے جن لوگوں کی غیبت کی ہے، کیا ان لوگوں سے معافی مانگنا بھی زید کے لیے ضروری ہے؟  یا فقط توبہ کرلینا کافی ہے؟؟ رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو برائی کے طور پر  ذکر کرنا غیبت ہے اور بلا حاجتِ شرعی  کسی بھی مسلمان کی  غیبت کرنا سخت ناجائز و حرام ہے قرآن و حدیث میں اس کی سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں، یہاں تک کہ قرآن مجید میں غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے پس اس گناہ سے بچنا ہر مسلمان کے لیے نہایت ضروری ہے۔

   لہذا پوچھی گئی صورت میں زید پر لازم ہے کہ صدقِ دل سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس گناہ سے توبہ کرے اور آئندہ اس گناہ سے باز رہے۔ البتہ صورتِ مسئولہ میں زید نے جن لوگوں کی غیبت کی ہے اگر تو ان لوگوں کو  اس غیبت کی خبر ہوگئی ہے تو اس صورت میں زید کے لیے توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے معافی مانگنا بھی ضروری ہے،  ورنہ فقط توبہ کرلینا ہی کافی ہے۔

   غیبت کی مذمت  کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَلَا یَغْتَبۡ بَّعْضُکُمۡ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَاتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲﴾ۚ ترجمہ کنز الایمان :”اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔“(القرآن الکریم،پارہ26، سورۃ الحجرات ، آیت12)

   بہارِ شریعت میں ہے:”غیبت کے یہ معنیٰ ہیں کہ کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو (جس کو وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو)اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا۔۔۔قرآن و حدیث میں غیبت کی بہت برائی آئی ہے(لہذا) اس حرام سے بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ آج کل مسلمانوں میں یہ بلا بہت پھیلی ہوئی ہے اس سے بچنے کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے ، بہت کم مجلسیں ایسی ہوتی ہیں جو چغلی اور غیبت سے محفوظ ہوں ۔(بہارِ شریعت، ج 03، ص 532، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً و ملخصاً)

   غیبت کے گناہ سے توبہ کرنے کے متعلق درِ مختار  میں مذکورہے:إذا لم تبلغه يكفيه الندم وإلا شرط بيان كل ما اغتابه بهیعنی جس کی غیبت کی ہو اسے اگر خبر نہ پہنچی ہو تو اس صورت میں فقط ندامت ہی کافی ہے ورنہ شرط ہے کہ ہر اس بات کو بیان کرے کہ جس کے ساتھ اِس نے اُس کی غیبت کی ہے۔

    (وإلا شرط بيان كل ما اغتابه به) کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمہ  ارشاد فرماتے ہیں:أي مع الاستغفار والتوبة والمراد أن يبين له ذلك ويعتذر إليه ليسمح عنه بأن يبالغ في الثناء عليه والتودد إليه ويلازم ذلك حتى يطيب قلبهترجمہ: ”یعنی استغفار اور توبہ کے ساتھ یہ بیان بھی کرے، اس سے مراد یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے اس کے سامنے یہ سب بیان کرے اور اس غیبت کرنے پر اس سے معذرت کرے تاکہ وہ اس غیبت سے درگزر کرے، اس طور پر کہ اس کی تعریف و ثناء میں مبالغہ کرے اور اس سے  محبت کا اظہار کرتا رہے یہاں تک کہ اس کا دل اس غیبت کرنے والے کے بارے میں خوش ہوجائے ۔“ ( رد المحتار مع الدر المختار، ج 09، ص 677، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے: ”جس کی غیبت کی اگر اس کو اس کی خبر ہوگئی تو اس سے معافی مانگنی ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے سامنے یہ کہے کہ میں نے تمھاری اس اس طرح غیبت یا برائی کی تم معاف کردو اس سے معاف کرائے اور توبہ کرے تب اس سے برئی الذمہ ہوگا اور اگر اس کو خبر نہ ہوئی ہو تو توبہ اور ندامت کافی ہے۔(بہار شریعت ، ج 01، ص 538، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم