Hum Jins Parasti(Homosexuality) Ka Hukum

Homosexuality (ہم جنس پرستی) کا حکم

مجیب: عبدالرب شاکرعطاری مدنی

مصدق: مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7971

تاریخ اجراء: 17محرم الحرام1444 ھ16اگست2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں  کہHomosexuality(یعنی مرد کا مرد کے ساتھ اورعورت کا عورت کے ساتھ ہم جنس پرستی)کو جائز سمجھنے والے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اس سوال کے جواب سے متعلق چھ اعتبارسے گفتگو کی جائے گی:

   (1)مختصر تمہید۔

   (2)& Gay Homosexuality , Lesbian کی وضاحت۔

   (3)اس عملِ بد کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی؟

   (4)اس کی عقلی وطبی خباثتیں۔

   (5)اس کا شرعی حکم۔

   (6)اسے جائز سمجھنے والے کا حکم۔

   (1)اللہ عزوجل نے انسانوں کے لیے ”نکاح“ کا ایک مقدس نظام دیا ہے ، تا کہ انسانوں کو اپنے جذبات کی تکمیل کے لیے جائز اور مناسب راہ مل سکے ۔اخلاقی طور پر بے راہ روی کا شکار نہ ہوں ، نسل انسانی کی بقا کا سامان مہیا ہو اور لوگ ایک خاندانی نظام کے تحت معاشرے میں امن و سکون کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔ نیز انسان کی فطرتِ سلیمہ بھی بےحیائی کو قبول نہیں کرتی، بلکہ اس سے باز رہنے کی تلقین کرتی ہے۔اللہ پاک نے انسان کو عقلِ سلیم عطا فرما کر دیگر مخلوق پر شرف بخشا۔ اگر انسان اس خاصیت کو بروئے کار لائے، تو دنیا کا کامیاب ترین انسان ہے اور اگر نفس کے ہاتھوں عاجز ہو جائے اور اچھے بُرے کی تمیز بھول جائے،تو جانوروں سے بھی بدتر ہے کہ جانور بھی فطری طور پر نفع ونقصان کی تمیز رکھتے ہیں۔جانوروں کا مقصد کھا پی کر اپنی شہوت نکال کرآخرت کے خوف سے بےخبر ہو کر زندگی گزارنا ہے،اب اگر انسان بھی ایسا ہو جائے کہ کھانے پینے اور بدفعلی کے ذریعے اپنی شہوانی خواہشات کوپورا کرنا اپنا مقصد بنالے، تو یہ انسانی فطرت سے پھرنا اور جانوروں سے بھی بدتر ہونا ہے۔ دین اسلام نہایت پاکیزہ مذہب ہے، جو مکارمِ اخلاق، اعلیٰ صفات اور عمدہ کردار کی تعلیم دیتا ہے اور جسمانی،باطنی طہارت کے ذریعے ایک باحیاء معاشرہ تشکیل دیتا ہے، عفت  و حیاء کو ایمان کا حصہ قرار دیتا ہے، بے راہ روی اور فُحْش کو برداشت نہیں کرتا، بلکہ اس کے مُرْتکبِیْن کی سزا تجویز کرتا ہے، تاکہ یہ نسلِ انسانی پاکیزہ اور بامقصدزندگی بسر کر سکے۔

   (2)ہم جنس پرستی(Homosexuality)کی وضاحت:

   فی زمانہ عالمی سطح پر تہذیب و تمدن کے دعوے دار کئی غیر مسلم ممالک نے اللہ تعالی کے اس نظام سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے معاشروں میں لواطت کو قانونا ً،جائز قرار دے رکھا ہے ،بلکہ کئی مسلم ممالک میں بھی یہ وَبا پھیلتی چلی جارہی ہے اور جن ملکوں میں اسے قانوناً اگر چہ جائز قرار نہیں دیا گیا ، وہاں بھی بہت سے لوگ اس غیر فطری عادت اور حرام کاری میں مبتلا نظر آتے ہیں۔اس حرام کاری کو قانوناً، جائز قرار دینے والے ملکوں میں اخلاقی اور خاندانی نظام کی تباہی کا حال کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔انگلش میں ہم جنس پرستی کو Homosexualityکہتے ہیں ۔

   پھراس کی دو صورتیں یہ ہیں:

   (1)Gay:مرد کا مرد سے بدفعلی کرنا، جسے اغلام بازی، لواطت بھی کہا جا تا ہے۔

   (2)Lesbian:عورتوں کا ایک دوسرے سے جنسی لذت حاصل کرنا، اسے عربی میں السحاق کہا جاتا ہے۔

   (3)ہم جنس پرستی کی ابتدا:

   ہم جنس پرستی کی ابتدا کے متعلق قرآن مجید میں ہے﴿وَلُوۡطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖۤ اَتَاۡتُوۡنَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمۡ بِہَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیۡنَ﴾ ترجمہ کنز العرفان:’’اور (ہم نے)لوط کو بھیجا،جب ا س نے اپنی قوم سے کہا:کیا تم وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہاں میں کسی نے نہیں کی؟‘‘(پارہ8،سورۃ الاعراف،آیت80)

   مذکورہ بالا آیت کے تحت تفسیر روح البیان میں ہے:”اخصبت بانواع الثمار والحبوب فتوجه اليهم الناس من النواحی والاطراف لطلب المعروف فتاذوا من كثرة ورود الفقراء فعرض لهم ابليس فى صورة شيخ وقال ان فعلتم بهم كذا وكذا نجوتم منهم فابوا فلما الح الناس عليهم قصدوهم فاصابوا غلمانا صباحا فاخبثوا فاستحكم فيهم ذلك وكانوا لا ينكحون الا الغرباء وقال الكلبی اول من فعل به ذلك الفعل ابليس الخبيث حيث تمثل لهم فى صورة شاب جميل فدعاهم الى نفسه ثم عملوا ذلك العمل بكل من ورد عليهم من المرد قضاء لشهوتهم ودفعا لهجوم الناس عليهم وعاشوا بذلك العمل زمانا“یعنی :اس قوم کی بستیاں بہت آباد اور نہایت سر سبز و شاداب تھیں اور وہاں طرح طرح کے اَناج اور پھل میوے بکثرت پیدا ہوتے تھے۔ اس خوشحالی کی وجہ سے اکثر دوسرے علاقوں کے لوگ ان آبادیوں میں آنے لگے ، تو یہاں کے باشندے ان فقرا کے کثرت سے آنے  کی وجہ سے  پریشان ہو  گئے،لیکن انہیں روکنے اور بھگانے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی،تو  اس ماحول میں ابلیس لعین ایک بوڑھے کی صورت میں نمودار ہوا اور ان لوگوں سے کہنے لگا: اگر تم لوگ ان  کی آمد سے نجات چاہتے ہو، تو یوں کرو کہ جب بھی ایسا کوئی شخص تمہاری بستی میں آئے ،تو اس کے ساتھ ایسا ایسا عمل (بد فعلی ) کرو ،تو انہوں نے ایسا کرنے سے انکار  کیا ، پھر جب باہر سے آنے والے  اور زیادہ ہو گئے ، تو یہاں کے لوگوں  نےوہ برا عمل کرنا شروع کر دیا اور وہ خوبصورت لڑکوں کے ساتھ یہ عمل کرتے ، یہاں تک کہ  ان کو اس کی عادتِ بد پڑ گئی  اور کلبی نے کہا سب سے پہلے ابلیس خبیث  نے یہ عمل کیا اس طرح کہ وہ ایک حسین وجمیل  لڑکے  کی شکل میں اس بستی میں داخل ہوا اور ان لو گوں  کو اپنی طرف مائل کر کے برا عمل  کروا یا،پھر ان لوگوں نے اپنی خواہشات کو پورا کرنے اور آنے والوں کو کم کرنے کے لیے ہر آنے والے خوبصورت مرد  کے ساتھ یہ عمل کرنا شروع کر دیااور ایک زمانہ دراز تک اس میں ملوث رہے ۔(روح البیان، الاعراف ، ج3، ص197، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   اسی آیت کے تحت تفسیرصراط الجنان میں ہے:”اس آیت سے معلوم ہوا کہ اغلام بازی قومِ لوط کی ایجاد ہے،اسی لیے اسے”لواطت“کہتے ہیں۔“(تفسیرصراط الجنان،ج03،ص362،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   Gay(لواطت) کی مذمت:

   قرآن و سنت میں لواطت وبدفعلی کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَنَجَّیْنٰهُ مِنَ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَبٰٓىٕثَ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمَ سَوْ ءٍ فٰسِقِیْنَ ترجمہ کنزالعرفان:اور اسے اس بستی سے نجات بخشی جو گندے کام کرتی تھی، بیشک وہ بُرے لوگ نافرمان تھے۔(پارہ17،سورۃ الانبیاء،آیت74)

   حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:ان اخوف ما اخاف على امتی عمل قوم لوط“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  ارشاد  فرمایا : مجھے تم پر قومِ لوط والے عمل کا سب سے زیادہ خوف ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الحدود، باب من عمل عمل قوم لوط، ج3، ص230،مطبوعہ دار المعرفۃ، بیروت)

   حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا:لعن اللہ من عمل عمل قوم لوط“ترجمہ:اس شخص پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جو قومِ لوط والا عمل کرے۔ (سنن الکبری للنسائی، ابواب التعزیرات والشھود، من عمل عمل قوم لوط، ج4، ص322، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   شعب الایمان میں ہے:”عن ابی سهل قال:سيكون فی هذه الامة قوم يقال لهم اللوطيون على ثلاثة اصناف:صنف ينظرون وصنف يصافحون وصنف يعملون ذلك العمل“ترجمہ:حضرت ابوسہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:عنقریب اس امت میں ایک قوم آئے گی جسے لوطیہ کہا جائے گا، وہ لوگ تین طرح کے ہوں گے:وہ جو(شہوت کے ساتھ) اَمرَدوں کو دیکھیں گے، ایک وہ ہوں گے جو ان سے ہاتھ ملائیں گے اور ایک وہ ہوں گے جو ان سے لواطت کریں گے۔(شعب الایمان، باب فی تحریم الفروج، ج7، ص287، مطبوعہ مکتبۃ الرشد، ریاض)

   کنزالعمال میں ہے:”من مات وهو يعمل عمل قوم لوط سار به قبره حتى يصير معهم ويحشر يوم القيامة معهم“ترجمہ:جو اس حال میں مرا کہ قوم لوط جیسا عمل کرتا ہو ،تو اس کی قبر قوم لوط کی طرف منتقل ہو جائے گی، یہاں تک کہ قیامت والے دن قومِ لوط کے ساتھ حشر ہوگا۔(کنزالعمال، کتاب الحدود، ج5، ص506، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

   امام ذہبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:”قال ابن عباس رضی اللہ عنھما  ان اللوطی اذا مات من غير توبة فانه يمسخ فی قبره خنزيرا“ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا:اگر لواطت کرنے والا بغیر توبہ مر جائے ،تو اسے قبر میں خنزیر کی شکل میں بدل دیا جاتا ہے۔(الکبائر، ص57، مطبوعہ دار الندوۃ الجدیدۃ، بیروت)

   Lesbian (عورتوں کا ایک دوسرے سے جنسی لذت حاصل کرنے) کی مذمت:

   عورتوں کا ایک دوسرے سے جنسی عمل کر کے اپنی شہوت کو تسکین دینا بھی انتہائی مذموم اور حرام ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ  الّٰتِیْ  یَاْتِیْنَ  الْفَاحِشَةَ  مِنْ  نِّسَآىٕكُمْ  فَاسْتَشْهِدُوْا  عَلَیْهِنَّ  اَرْبَعَةً  مِّنْكُمْۚ فَاِنْ شَهِدُوْا  فَاَمْسِكُوْهُنَّ  فِی  الْبُیُوْتِ  حَتّٰى  یَتَوَفّٰهُنَّ  الْمَوْتُ  اَوْ  یَجْعَلَ  اللّٰهُ  لَهُنَّ  سَبِیْلًا ترجمہ کنزالایمان:’’اور تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کریں، ان پر خاص اپنے میں کے چار مردوں کی گواہی لو، پھر اگر وہ گواہی دے دیں ،تو ان عورتوں کو گھر میں بند رکھو، یہاں تک کہ انہیں موت اٹھالے یا اللہ ان کی کچھ راہ نکالے۔“(پارہ4،سورہ النساء،آیت15)

   تفسیر کبیر میں امام ابومسلم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ہے:”ان المراد بقوله واللاتی ياتين الفاحشة السحاقات“یعنی  اللہ پاک کے اس قول﴿ وَ  الّٰتِیْ  یَاْتِیْنَ  الْفَاحِشَةَ سے مراد خود عورت کا عورت سے بےحیائی کا کام کرنا ہے۔(تفسیر الکبیر،جلد9، صفحہ528، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   علامہ ملّا احمد جیون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:ان الاولی فی باب السحاقات“یعنی پہلی آیت ﴿ وَ  الّٰتِیْ  یَاْتِیْنَ  الْفَاحِشَةَان عورتوں کے بارے میں ہے کہ جو عورت عورت سے بدفعلی کرے۔(التفسیرات الاحمدیہ، صفحہ19، مطبوعہ مکتبۃ الشرکۃ)

   حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”سحاق النساء زنا بينهن “ترجمہ:عورتوں کا ایک دوسرے سے جنسی عمل کرنا ان کے درمیان زنا ہے۔یعنی جس طرح زنا حرام ہے اسی طرح عورت کا عورت کے ساتھ جنسی عمل کرنا حرام ہے۔(شعب الایمان، باب فی تحریم الفروج، جلد4، صفحہ376، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   امام احمد بن محمد بن علی بن حجر الہیثمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:”(مساحقة النساء وهو ان تفعل المراة بالمراة مثل صورة ما يفعل بها الرجل) كذا ذكره بعضهم واستدل له بقوله: السحاق زنا النساء بينهن  وقوله : ثلاثة لا يقبل اللہ منهم شهادة ان لا اله الا اللہ: الراكب والمركوب، والراكبة والمركوبة، والامام الجائر “ترجمہ:مُسَاحَقَۃُ النِّسَاء یہ ہے کہ عورت عورت کے ساتھ اسی طرح بدفعلی کرے جیسے مرد آپس میں کرتے ہیں،جیسا کہ بعضوں نے ذکر کیا ہے، انہوں نے حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے:عورتوں کا آپس میں سحاق زنا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:اللہ پاک تین لوگوں کی شہادت قبول نہیں کرتا،بدکاری کرنے والا اور کروانے والا، بدکاری کرنے والی اور کروانے والی اور ظالم حکمران۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر، جلد2، صفحہ235، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   اس کی مذمت کےلیے یہی کافی ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی عورتیں اسی عمل کے سبب عذاب کی حقدار ٹھہریں اور مردوں کے ساتھ یہ بھی مبتلائے عذاب ہوئی تھیں، جیسا کہ حضرت محمد بن علی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا گیا:”عذب اللہ نساء قوم لوط بعمل رجالها ؟قال :اللہ اعدل ۔۔۔يستغنی الرجال بالرجال والنساء بالنساء“یعنی :کیا اللہ پاک نے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی عورتوں کو ان کے مَردوں کے عمل کے سبب عذاب میں مبتلا کیا؟آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:بیشک اللہ پاک سب سے زیادہ انصاف فرمانے والا ہے۔ اس قوم کے مرد مردوں سے اور عورتیں عورتوں سے شہوت پوری کیا کرتے تھے(اس لیے مردوں کے ساتھ عورتیں بھی مبتلائے عذاب ہوئیں۔)(تاریخ ابن عساکر، جلد50، صفحہ320، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   (4)لواطت کی عقلی اور طبی خباثتیں :

   لواطت کی عقلی و طبی خباثتوں کو بیان کرتے ہوئے شیخ القرآن مفتی محمد قاسم عطاری سَلَّمَہُ الْبَارِیاپنی مشہورِزمانہ تفسیر بنام”صراط الجنان“میں لکھتے ہیں:”لواطت کا عمل عقلی اور طبی دونوں اعتبار سے بھی انتہائی خبیث ہے۔

   عقلی اعتبار سے ا س کی ایک خباثت یہ ہے کہ یہ عمل فطرت کے خلاف ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فطری اعتبار سے مرد کو عمل کرنے والا اور عورت کو خاص مقام میں عمل قبول کرنے والا بنایا ہے اور لواطت انسان تو انسان جانوروں کی بھی فطرت کے خلاف ہے کہ جانور بھی شہوت پوری کرنے کے لیے نر کی طرف یا مادہ کے خاص مقام کے علاوہ کی طرف نہیں بڑھتا، اس لیے لواطت کرنے والا اپنی فطرت کے خلاف چل رہا ہے اور فطرت کے خلاف چلنا عقلی اعتبار سے انتہائی قبیح ہے۔

   دوسری خباثت یہ ہے کہا س کی وجہ سے نسلِ انسانی میں اضافہ رُک جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نسلِ انسانی میں اضافے کا یہ طریقہ مقرر فرمایا ہے کہ مرد اور عورت دونوں میں شہوت رکھی اور اس شہوت کی تسکین کے لیے جائز عورت کو ذریعہ بنایا، جب یہ اپنی شہوت پوری کرتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں عورت حاملہ ہوجاتی اور کچھ عرصے بعد اس کے ہاں ایک انسان کی پیدائش ہوتی ہے اور اس طرح انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اب اگر شہوت کو اس کے اصل ذریعے کی بجائے کسی اور ذریعے سے تسکین دی جائے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نسلِ انسانی میں اضافہ رُک جائے گا اور اس صورت میں انتہائی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، جیسے وہ ممالک جن میں لواطت کے عمل کو رواج دیا گیا ہے ،آج ان کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے لوگوں کو اپنے ہاں بلوا کر اور انہیں آسائشیں دے کر اپنے ملک کے لوگوں کی تعداد بڑھانے پر مجبور ہیں۔

   تیسری خباثت یہ ہے کہا س عمل کی وجہ سے انسانیت ختم ہو جاتی ہے، کیونکہ مرد کا عورت سے اپنی شہوت کو پورا کرناجانوروں کے شہوانی عمل سے مشابہت رکھتا ہے، لیکن مرد و عورت کے اس عمل کو صرف اس لیے اچھا قرار دیا گیا ہے کہ وہ اولادکے حصول کا سبب ہے اور جب کسی ایسے طریقے سے شہوت کو پورا کیا جائے جس میں اولاد حاصل ہونا ،ممکن نہ ہو، تو یہ انسانیت نہ رہی، بلکہ نری حیوانیت بن گئی اور کسی کا مرتبہِ انسانی سے گِر کر حیوانوں میں شامل ہونا عقلی اعتبار سے انتہائی قبیح ہے۔

   چوتھی خباثت یہ ہے کہ لواطت کا عمل ذلت و رسوائی اور آپس میں عداوت اور نفرت پیدا ہونے کا ایک سبب ہے ،جبکہ شوہر کا اپنی بیوی کے ساتھ جِماع کرنا عزت کاذریعہ اور ان میں الفت و محبت بڑھنے کا سبب ہے، جیسا کہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَ مِنْ اٰیٰتِہٖۤ اَنْ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’ اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف آرام پاؤ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔“

   اور عقلِ سلیم رکھنے والے کے نزدیک وہ عمل ضرور خبیث ہے ،جو ذلت و رسوائی اور نفرت و عداوت پیدا ہونے کا سبب بنے۔

   طبی طور پر ا س کی خباثت کے لیے یہی کافی ہے کہ انسان کی قوتِ مُدافعت ختم کر کے اسے انتہائی کَرب کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دینے والا اور ابھی تک لا علاج مرض پھیلنے کا بہت بڑا سبب لواطت ہے اور جن ممالک میں لواطت کو قانونی شکل دے کر عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے ان میں دیگر ممالک کے مقابلے میں ایڈز کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد بھی زیادہ ہے۔

   اور ا س کی دوسری طبی خباثت یہ ہے کہاللہ  تعالیٰ نے عورت کے رحم میں منی کو جذب کرنے کی زبردست قوت رکھی ہے اور جب مرد اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے، تو ا س کے جسم کا جو حصہ عورت کے جسم میں جاتا ہے ،تو رحم اس سے منی کے تمام قطرات جذب کر لیتا ہے، جبکہ عورت اور مرد کے پچھلے مقام میں منی جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھی گئی اور جب مرد لواطت کا عمل کرتا ہے، تو اِس کے بعد لواطت کے عمل کے لیے استعمال کیے گئے جسم کے حصے میں منی کے کچھ قطرات رہ جاتے ہیں اور بعض اوقات ان میں تَعَفُّن پیدا ہو جاتا ہے اور جسم کے اس حصے میں سوزاک وغیرہ مہلک قسم کے امراض پیدا ہو جاتے ہیں اور اس شخص کا جینا دشوار ہوجاتا ہے۔“(تفسیرصراط الجنان، ج03،ص364تا 366،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   (5)ہم جنس پرستی کا شرعی حکم:

   Homosexuality (ہم جنس پرستی) خبیث ترین،ناجائز،حرام وگناہ کبیرہ ہے،جس کی مذمت بیان کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ترجمہ کنزالایمان :’’اور لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی؟‘‘(پارہ8،سورۃالاعراف،آیت80)

   لواطت اور سحاق (Lesbian and gay)کے قومِ لوط کے عمل میں سے ہونے کے بارے میں روح المعانی میں ہے:”والحق بها بعضهم السحاق وبدا ايضا فی قوم لوط عليه السلام فكانت المراة تاتی المراة فعن حذيفة رضی اللہ تعالى عنه انما حق القول على قوم لوط عليه السلام حين استغنى النساء بالنساء والرجال بالرجال“یعنی :بعض فقہائے کرام نےسحاق(یعنی عورت کا عورت کے ساتھ جنسی عمل کرنے ) کو قوم لوط کے عمل میں شامل کیا ہے، کیونکہ ان کی عورت عورت کے ساتھ بدفعلی کرتی تھی۔حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم اس وقت عذاب کی حقدار ٹھہری جب ان کی عورتیں عورتوں سے اور مرد مردوں سے شہوت پوری کرنے میں مشغول ہوگئے۔(روح المعانی فی تفسیر القرآن،جلد4، صفحہ410، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

  مجمع الزوائد میں ہے:”عن انس بن مالك قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا استحلت امتی ستا فعليهم الدمار اذا ظهر فيهم التلاعن وشربوا الخمور ولبسوا الحرير واتخذوا القيان واكتفى الرجال بالرجال والنساء بالنساء“ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب میری امت چھ(حرام) چیزوں کو حلال سمجھ لے گی، اس وقت ان کی ہلاکت ہوگی، جب ایک دوسرے کو لعنت کریں، شرابیں  پیئں، ریشم پہنیں، گانے باجے کو اختیا ر کریں، مرد مرد کی حاجت پوری کرنے کے لیے کافی ہو اور عورت عورت کی حاجت پوری کرنے کےلیے کافی ہو۔(مجمع الزوائد، کتاب الفتن، باب ثان فی امارت الساعۃ، جلد7، صفحہ640، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   بحرالرائق میں ہے:ان اللواطة محرمة عقلا وشرعا وطبعا بخلاف الزنا وانه ليس بحرام طبعا فكانت اشد حرمة منه، وفی فتح القدير وهل تكون اللواطة فی الجنة ای هل يجوز كونها فيها، والصحيح انها لا تكون فيها لانه تعالى سماه خبيثة فقال تعالى ﴿كانت تعمل الخبائث﴾ والجنة منزهة عنها ملخصا“ترجمہ: بلا شبہ  لواطت عقلاً اور شرعاً اور طبعاً حرام ہے ،  بخلاف زنا کے کہ زناطبعاً حرام نہیں ہے۔ تو لواطت کی حرمت زنا سے زیادہ سخت ہے ، فتح القدیر میں ہے کہ جنت میں  لواطت جائز ہوگی ؟ صحیح یہ ہے کہ جنت میں لواطت نہیں ہوگی،کیونکہ اللہ عز وجل نے لواطت کا نام خبیث رکھا اور فرمایاوہ بستی ( یعنی قوم لوط ) گندے کام کرتی تھی اور جنت خباثت سے منزہ ہے۔(بحر الرائق شرح کنزالدقائق، کتاب الحدود، ج5، ص17،مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی)

   الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:”ان الزنا حرام، اللواط محرم ايضا، بل هو افحش من الزنا لقوله عزوجل: ﴿ وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ﴾،  فسماه الحق تعالى فاحشة“ترجمہ:بیشک زنا حرام ہے، اسی طرح لواطت بھی حرام ہے، بلکہ لواطت زنا سے بھی زیادہ فحش ہے، کیونکہ اللہ پاک کا فرمان موجود ہے: ﴿ وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ پس اللہ تعالیٰ نے  اس کا نام فاحشہ رکھا۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج7، ص5346، مطبوعہ دار الفکر، دمشق)

   سحاق کے گناہ کبیرہ ہونے کے بارے میں  امام احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیثمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  لکھتے ہیں:”الكبيرة الثانية والستون بعد الثلاث مائة: مساحقة النساء وهو ان تفعل المراة بالمراة مثل صورة ما يفعل بها الرجل“یعنی :تین سو کے بعد باسٹھواں بڑا گناہ مساحقۃ النساء ہے:اور وہ  یہ ہے کہ عورت عورت کے ساتھ اسی طرح بدفعلی کرے ،  جیسے مرد آپس میں کرتے ہیں۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر، جلد2، صفحہ235، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   سحاق کے بالاتفاق حرام ہونے کے بارے میں موسوعۃ فقہیہ   کویتیہ میں ہے:”لا خلاف بين الفقهاء فی ان السحاق حرام لقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: السحاق زنى النساء بينهن“یعنی فقہائے کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم  کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ بیشک سحاق(یعنی عورت کا عورت کے ساتھ جنسی عمل کرنا) حرام ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:عورتوں کا ایک دوسرے سے جنسی عمل کرنا ان کے درمیان زنا ہے۔یعنی جس طرح زنا حرام ہے ، اسی طرح عورت کا عورت کے ساتھ جنسی عمل کرنا حرام ہے۔(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ، جلد24، مطبوعہ مصر)

   الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:”السحاق:(وهو فعل النساء بعضهن ببعض) حرام“ترجمہ:سحاق(اور بعض عورتوں کابعض عورتوں کے ساتھ جنسی عمل کرنا) حرام ہے۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ، جلد7، صفحہ5346، مطبوعہ دار الفکر، دمشق)

   (6)اس کی حرمت کا انکار کرنے والے کے کافر ہونے کے بارے میں مفسر شہير حكيم الامت حضرت مفتی احمد یارخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ وفات:1391ھ) لکھتے ہیں:’’ فاحشہ ( بے حیائی ) وہ گناہ ہے جسے عقل بھی برا سمجھے ۔ کفر اگر چہ بدترین گناہ کبیرہ ہے ،مگر اسے رب (عزوجل ) نے فاحشہ (یعنی بے حیائی ) نہ فرمایا، کیونکہ نفسِ انسانی اس سے گھن نہیں کرتی ۔ بھتیرے عاقل (عقلمند کہلانے والے ) اس میں گرفتار ہیں،  مگر اِغلام (یعنی بدفعلی) تو ایسی بُری چیز ہے کہ جانور بھی اس سے متنفر ہیں، سوائے سور کے ۔ لڑکوں سے اغلام حرام قطعی ہے ،اس کے حرام ہونے کا منکر (یعنی انکار کرنے والا) کافر ہے۔‘‘(نورالعرفان، صفحہ500، مطبوعہ پیر بھائی اینڈکمپنی)

   تفسیر صراط الجنان میں ہے:”اس آیت سے  معلوم ہوا کہ اغلام بازی  قومِ لوط  کی ایجاد ہے، اسی لیے اسے’’ لواطت‘‘   کہتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑکوں سے بدفعلی حرام قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔“(تفسیر صراط الجنان، جلد3، صفحہ80، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   منح الروض میں ہے:”من انکر حرمۃ الحرام المجمع علی حرمتہ او شک فیھا، ای یستوی الامر فیھا کالخمر والزنا واللواطۃ والربا…كفر “جس نے حرامِ اجماعی کی حرمت کا انکار کیا یا اُس کے حرام ہونے میں شک کیا ،وہ کافر ہے، جیسے شراب، زنا، لواطت، سود۔(منح الروض، صفحہ503، دار البشار الاسلامیہ)

   بحر الرائق اور درمختار میں ہے:”یکفر مستحلھا عند الجمھورترجمہ:جمہورعلمائے مذہب کے نزدیک اس(یعنی بد فعلی) کو حلال جاننے والا کافر ہے۔(بحر الرائق شرح کنزالدقائق، کتاب الحدود، جلد5، صفحہ28،مطبوعہ کوئٹہ)

   اعلی حضرت ،امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لواطت کے حلال ہونے کے قائل کے بارے میں لکھتے ہیں:”حِل لواطت کا قائل کافر ہے۔ “(فتاوی رضویہ،ج23،ص694،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  لکھتے ہیں:”اغلام  کو حلال جاننے والا کافر ہے، یہی مذہب جمہور ہے۔“(بھار شریعت،ج02،ص381،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم