Islam Me Kala Jadu Krne Karwane Aur Kala Jadoo Ke Liye Raqam Dene Ka Sharai Hukum

کالا جادو کرنے ،کروانے اور اس کے لیے پیسے وغیرہ دینے کا حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2348

تاریخ اجراء: 23ربیع الثانی 1444  ھ/19 نومبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک خاتون روحانی علاج کرتی (عاملہ )ہے ، جس کے لیے اس نے واٹس ایپ پر گروپ بنایا ہوا ہے ، جس میں وہ استخارے ، خوابوں کی تعبیریں ، روحانی علاج کرتی ہے اور اس علاج کرنے کی وہ فیس بھی چارج کرتی ہے ۔ ایک عورت کے شوہر کا کوئی مسئلہ تھا ، تو اُس عورت نے اِس روحانی علاج کرنے والی خاتون سے استخارہ کروایا ، تو استخارے میں عملیات کا اشارہ آیا ، جس کی کاٹ کرنے کے لیے اس نے بولا کہ کچھ پیسے لگیں گے اور پھر کچھ دنوں بعد اس عاملہ خاتون نے بتایا کہ کسی نے کالا جادو کیا ہوا ہے ، جس کا توڑ کالے جادو سے ہی ہوگا اور اس کے لیے جس عورت کا مسئلہ ہے ، وہ اپنی بے پردگی والی (برہنہ ) تصاویر دے گی ، اس کے ذریعے وہ کالا جادو کر کے اس کا مسئلہ حل کرے گی ۔اس کا کہنا تھا کہ وہ تصویریں اس کے پاس امانت رہیں گی ، یہاں تک کہ اس نے کہا کہ اگر یقین نہیں ہے ، تو میری تصویر اپنے پاس رکھ لو اور پھراس نے اپنی بے پردگی والی تصویر بھیج دی ۔ اس پسِ منظر میں پوچھنا یہ ہے کہ

(1)کالے جادو کے بارے میں کیا حکمِ شرعی ہے ؟

(2)اس کے لیے بے پردگی والی تصاویر دینا کیسا ؟

(3)کیا اس عمل کے لیے پیسے دینا شرعاً جائز ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

  (1)کالاجادو  ناجائز و حرام ، بلکہ کفریہ اقوال و افعال پر بھی مشتمل ہوتا ہے ، اس لیے کالا جادو کرنا اور کروانا سخت ناجائز و حرام ، گناہِ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔قرآن و حدیث میں بہت واضح اور کھلے انداز میں جادو کی مذمت بیان کی گئی ہے اور بہت سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں،بالخصوص اگر جادو کے عمل میں کسی  قسم کا کفریہ اعتقاد ( مثلا ستاروں ، شیاطین کو موثر ماننا )، کفریہ قول یا کفریہ فعل (مثلا:قرآنِ پاک کی کسی ذریعے سے توہین کرنا وغیرہ )پایا جائے ، تو جادو کرنے والا شخص کافر اور دائرہ  اسلام سے خارج ہو جائے گا ۔ اسی طرح اگر جادو کروانے والے شخص میں بھی ستاروں،  شیاطین کو موثر ماننے کا اعتقاد پایا گیا یا اس کفریہ قول یا فعل پر راضی ہوا ، تو وہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا ، کیونکہ کفر پر راضی ہونا بھی کفر ہی ہے اور ایسا بہت ہی شاذ و نادر ہوتا ہے کہ کالے جادو میں کوئی کفریہ بات نہ پائی جائے اور اگر بالفرض اس میں کوئی کفریہ بات نہ بھی پائی جائے ، پھر بھی یہ سفلی عمل ہے ، جو ناجائز و حرام ہے ۔ایمان کی سلامتی ، قبر و حشر کے عذاب سے بچنے کے لیے کالا جادو کرنے اور کروانے سے دور رہنا بہت ضروری ہے ، ہاں اپنے مسائل کے حل کے لیے قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق روحانی علاج کروایا جاسکتا ہے ، اس میں جان کے ساتھ ساتھ ایمان کی بھی سلامتی ہے ۔

  جادو گر کبھی کامیابی نہیں پاسکتا ، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ﴿ وَ لَایُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیۡثُ اَتٰی ﴾ ترجمہ کنزالعرفان: ”اور جادوگر کامیاب نہیں ہوتا جہاں بھی آجائے۔ (پارہ 16 ، سورہ طٰہٰ ، آیت 69)

  اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :﴿ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ کَفَرُوۡا یُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحْرَ ترجمۂ کنزالعرفان:”بلکہ شیطان کافر ہوئے ، جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے ۔“

  اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے: ”یعنی جادو سیکھ کر اور اس پر عمل و اعتقاد کرکے اور اس کو مباح جان کر کافر نہ بن۔ یہ جادو فرماں بردار و نافرمان کے درمیان امتیاز و آزمائش کے لئے نازل ہوا ، جو اس کو سیکھ کر اس پر عمل کرے ، کافر ہوجائے گا ، بشرطیکہ اس جادو میں منافی ایمان کلمات و افعال ہوں ، جو اس سے بچے ، نہ سیکھے یا سیکھے اور اس پر عمل نہ کرے اور اس کے کفریات کا معتقد نہ ہو وہ مومن رہے گا۔  یہی امام ابومنصور ما تریدی کا قول ہے ۔ (پارہ 1 ، سورۃ البقرۃ ، آیت 102)

  جامع ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے:’’ قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حد الساحر ضربة بالسيف ‘‘ترجمہ:نبی پاک صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:جادو کرنے والے کی سزا یہ ہے کہ اس کو تلوار سے قتل کردیا جائے ۔ (ترمذی ،کتاب الحدود،حد الساحر،جلد 4 ، صفحہ 60 ، مطبوعہ مصر)

  ایک اور حدیثِ پاک میں ہے :’’لا یَنظرُ اللہُ یوم القیامۃ إلی مانع الزکاۃ ولا إلی آکل مال یتیم ولا إلی ساحر ولا إلی غادر‘‘ ترجمہ: اللہ عزوجل قیامت والے دن زکوٰۃ نہ دینے والے،یتیم کا مال کھانے والے،جادوگر اور دھوکے باز کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔(کنزالعمال،جلد16،صفحہ17،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت)

  جادو کی تصدیق کرنے والے کی مذمت سے متعلق حدیثِ پاک میں ہے : ” انَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:  ثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ: مُدْمِنُ الْخَمْرِ، وَقَاطِعُ الرَّحمِ، وَمُصَدِّقٌ بِالسِّحْرِ “ترجمہ: نبی پاک صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ تین طرح کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہوگے :(1) شراب کا عادی (2) قطع تعلقی کرنے والا (3) جادو کی تصدیق کرنے والا ۔(صحیح ابن حبان ، جلد 12 ، صفحہ 165 ، مطبوعہ موسسۃ الرسالہ ، بیروت )

  جادو سے بچنے کی تعلیم دیتے ہوئے سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا : ” اجتنبوا السبع الموبقات قالوا: يا رسول الله وما هن؟ قال: الشرك بالله، والسحر، وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم  والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات “ ترجمہ:سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یارسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! وہ سات چیزیں کون سی ہیں؟ تو ارشاد فرمایا:اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ، جادو کرنا  ، جس جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام فرمایا ، اسے ناحق قتل کرنا ، سود کھانا ، یتیم کا مال کھانا ، جہاد والے دن بھاگ جانا ، پاک دامن اور غافل عورتوں پر تہمت لگانا ۔(صحیح البخاری ، کتاب الوصایا ، جلد 4 ، صفحہ 10 ، مطبوعہ دار طوق النجاۃ )

  جادو کے گناہ کبیرہ میں ہونے سے متعلق حدیثِ پاک میں ہے:”عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال الكبائر سبع، الشرك بالله، وعقوق الوالدين، والزنا، والسحر، والفرار من الزحف، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم “ ترجمہ:نبی کریم صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَسے مروی ہے ، آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا:گناہِ کبیرہ سات ہیں:اللہ پاک کے ساتھ شریک ٹھہرانا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، زنا ، جادو ، جہاد سے بھاگنا ، سود کھانا اور یتیم کا مال ( ناجائز طریقے سے )کھانا ۔(الکفایہ فی معرفۃ اصول علم الروایۃ ، مقدمۃ الکتاب ، من ذکر الکبائر ، جلد 1 ، صفحہ 273 ، مطبوعہ دار ابن جوزی )

  اسی طرح اس کے گناہِ کبیرہ ہونے سے متعلق الجوہرۃ النیرۃ میں ہے :’’ومن الکبائر السحر وکتمان الشھادۃ من غیر عذر والإفطار فی رمضان من غیر عذر وقطع الرحم الخ ‘‘ ترجمہ : جادو کرنا ، بغیر عذر گواہی چھپانا ، بغیر عذر رمضان کا روزہ چھوڑنا اور قطع تعلقی کرنا الخ کبیرہ گناہوں میں سے ہیں ۔ ( الجوھرۃ النیرۃ ، کتاب الشھادۃ ، جلد 2 ، صفحہ 298 ، مطبوعہ کراچی )

  علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ جادو کی مختلف اَقسام بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’والحاصل ان السحر حرام مطلقا بانواعہ ‘‘ترجمہ:اور حاصل یہ ہے کہ جادو کی تمام اقسام مطلقاً حرام ہیں۔        (رسائل ابن عابدین ،حصہ2،صفحہ305، مطبوعہ سھیل اکادمی ، لاھور )

  شیخ الاسلام و المسلمین امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں :”اقول :یوہیں حاضرات اگر عملِ علوی سے غرضِ جائز کے لیے ہوا اور اس میں شیاطین سے استعانت نہ ہو ، جائزہے ، ہاں اگر سفلی عمل ہو یا شیاطین سے استعانت تو ضرور حرام ہے ، بلکہ قو ل یا فعل کفر پر مشتمل ہو تو کفر۔ملخصاً۔ (فتاوی افریقہ ، صفحہ157، مکتبہ نوریہ رضویہ ، فیصل آباد)

  اسی طرح سفلی عمل کے بہر صورت حرام ہونے سے متعلق آپ رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ” اَعمال سفلیہ کہ اصل میں حرام ہیں ۔           (فتاویٰ رضویہ ، جلد 23 ، صفحہ398 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

  فتاویٰ بحر العلوم میں سوال ہوا کہ ہندوں بالوں پر منتر پڑھ کر سانپوں سے بچنے کے لیے گھروں کے چاروں طرف ڈال دیتے ہیں ، یہی عمل مسلمان بھی کروائیں ، تو کیا حکم ہوگا ؟ اس کے جواب میں فرمایا:” اگر اس منتر میں کوئی لفظ کفر کا ہے یا اس عمل میں کوئی فعل کفر کا کرنا پڑتا ہے ، تو اس کا کرنے والا ، اس کی تصدیق کرنے والے سب کافر ہوگئے ، سب پر توبہ ، تجدیدِ ایمان ، تجدیدِ نکاح ضروری ہے اور کوئی قول یافعل کفر نہ ہو ، تب بھی ایسا سفلی عمل کرنا حرام ہے ۔ “ (فتاویٰ بحر العلوم ، جلد 4 ، صفحہ 177 ، مطبوعہ شبیر برادرز ، لاھور )

   (2)جائز طریقے سے روحانی علاج کیا جائے ، تو اس کے لیے بھی بے پردگی ( برہنہ ) تصاویر دینا ہرگز جائز نہیں ہے ، چہ جائیکہ ناجائز کام کے لیے دی جائیں ، کہ یہ سراسر فحاشی و بے حیائی ہے ، جو شیطانی کام ہے اور اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے ۔ اسلام ایک پاکیزہ اور خوبصورت دین ہے ، جس میں اس طرح کی خرافات کی ہرگز گنجائش نہیں ہے ، بلکہ فحاشی پھیلانے والوں سے متعلق تو سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں ، لہٰذا اس عمل کے لیے بے پردگی و فحاشی والی تصاویر ہرگز نہیں دے سکتے ۔

  فحاشی و بے حیائی شیطانی کام ہیں ، چنانچہ اللہ پاک قرآنِ مجید میں فرماتا ہے : ﴿ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ فَاِنَّہٗ یَاۡمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنۡکَرِ﴾ ترجمۂ کنز الایمان: ” اے ایمان والو !شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو شیطان کے قدموں پر چلے ، تو وہ تو بے حیائی اور بُری ہی بات بتائے گا ۔ (پارہ 18 ، سورۃ النور ، آیت 21)

  اور بے حیائی پھیلانے والوں سے متعلق قرآنِ مجید میں ہے : ﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ﴾ترجمہ:بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ،ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔(پارہ 18 ، سورۃ النور ، آیت 19)

  بے پردگی سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرماتا  ہے:﴿  وَلَا  تَبَرَّجْنَ   تَبَرُّجَ   الْجَاہِلِیَّۃِ    الْاُوۡلیٰ  ﴾ ترجمہ کنزالعرفان :اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی ۔               (پارہ 22، سورۃ الاحزاب،آیت33)

  اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:’’(ایک قول یہ ہے کہ )اگلی جاہلیت سے مراد اسلام سے پہلے کا زمانہ ہے،اس زمانے میں عورتیں اتراتی ہوئی نکلتی اور اپنی زینت اور محاسن کا اظہار کرتی تھیں ،تاکہ غیر مرد انہیں دیکھیں ،لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضا اچھی طرح نہ ڈھکیں ۔‘‘             (تفسیر صراط الجنان  تحت ھذہ الاٰیہ،ج8،ص21،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

  بےپردگی والا لباس پہنا ہو ، اس سے متعلق بھی جہنم کی وعید ہے ، چہ جائیکہ کسی کے سامنے بے لباس ہوا جائے ، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’صنفان من اهل النار لم ارهما:۔۔۔۔ نساء كاسيات عاريات، مميلات،مائلات، رءوسهن كاسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وان ريحها ليوجد من  مسيرة كذا وكذا‘‘ترجمہ:دوزخیوں کی دو جماعتیں ایسی ہیں،جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں) نہیں دیکھا۔(میرے بعد والے زمانے میں ہوں گی ۔ایک جماعت )ایسی عورتوں کی ہوگی  جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی،لیکن حقیقت میں بے لباس اور ننگی ہوں گی ،بے حیائی کی طرف دوسروں کو مائل کرنے اور خود مائل ہونے  والی ہوں گی،ان کے سر ایسے ہوں گے،جیسے بختی اونٹوں کی ڈھلکی ہو ئی کوہانیں ہوں،یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو سونگھیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی  اتنی مسافت سے محسوس کی جائے گی ۔

(صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النساء الکاسیات ۔۔الخ،ج3،ص1680،مطبوعہ بیروت )

  اس حدیثِ پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے:’’ قيل: يلبسن ثوبا رقيقا يصف بدنهن وان كن كاسيات للثياب عاريات فی الحقيقة ‘‘ترجمہ: یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ باریک کپڑے پہنیں گی،جس سے ان کا بدن جھلکےگا،اگرچہ یہ عورتیں بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی،لیکن حقیقت میں بے لباس اور ننگی ہوں گی۔         (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،ج6،ص2302،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت)

  کسی کا ستر دیکھنے اور دِکھانےوالے سے متعلق حدیثِ پاک میں ہے: ان رسو ل اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: لعن اللہُ الناظرَ والمنظورَ إليه “ ترجمہ : رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: بد نگاہی کرنے والے اور کروانے والے پر اللہ عزوجل کی لعنت ہے۔(السنن الكبرى للبيهقی، کتاب النکاح، جلد 7، صفحہ 159، مطبوعہ بیروت)

  سترِ عورت ہر حال میں لازم ہے ، چنانچہ بہارِ شریعت میں ہے: ”ستر عورت ہر حال میں واجب ہے، خواہ نماز میں ہو یا نہیں، تنہا ہو یا کسی کے سامنے، بلا کسی غرض صحیح کے تنہائی میں بھی کھولنا جائز نہیں اور لوگوں کے سامنے یا نماز میں توستر بِالْاِجماع فرض ہے۔ (بھارِ شریعت ، حصہ 3 ، جلد 1 ، صفحہ 479 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   (3)کالا جادو کرنے کی اُجرت لینا ناجائز و حرام ہے ، اسی طرح اجرت دینا بھی ناجائز و حرام ہے ، کیونکہ یہ سراسر ناجائز اور گناہ والا کام ہے ، جبکہ گناہ والے کام کا اجارہ کرنا ، اس کی اجرت لینا ، اسی طرح اس کی اجرت دینا بھی ناجائز و گناہ ہے ۔

  گناہ کے کام کا اجارہ کرنا بھی گناہ ہے ، چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ”الھدایہ“میں ہے: لایجوز الاستیجار علی الغناء والنوح وکذا سائر الملاھی لانہ استیجار علی المعصیۃ والمعصیۃ لاتستحق بالعقدترجمہ: گانے،نوحے اور اسی طرح تمام لہوولعب کے کاموں پر اجارہ ناجائز ہے،کیونکہ یہ معصیت(یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے کام)ہیں اور معصیت کا استحقاق کسی عقد سے نہیں ہوتا۔(الھدایہ،کتاب الاجارات،باب الاجارۃ الفاسدۃ،جلد 3،صفحہ 306،مطبوعہ  لاھور)

  ناجائزکام کی اجرت کے حرام ہونے کے بارے میں امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’حرام فعل کی اجرت میں جوکچھ لیاجائے ،وہ بھی حرام کہ اجارہ نہ معاصی پرجائزہے، نہ اطاعت پر۔‘‘         (فتاوی رضویہ،ج21،ص187،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

  اگرچہ دی جانے والی اُجرت حلال مال سے دی جائے، پھر بھی یہ اجرت لینا ناجائز ہی ہے ،چنانچہ امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’ایک وہ جس میں خودناجائزکام کرناپڑے،جیسے یہ ملازمت جس میں سودکالین دین،اس کالکھناپڑھنا،تقاضاکرنااس کے ذمہ ہو،ایسی ملازمت خودحرام ہے،اگرچہ اس کی تنخواہ خالص مال حلال سے دی جائے،وہ مال حلال بھی اس کے لیے حرام ہے،مال حرام ہے توحرام درحرام۔‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد 19،صفحہ 515، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

  مفتی محمد وقارالدین قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:’’معصیت(ناجائزکام) کرنے پر اجرت بھی معصیت (ناجائز)ہوتی ہے۔لہٰذا جس طرح تصویر بنانا حرام ہے،اس کی مزدوری لینا بھی حرام ہے۔‘‘ (وقارالفتاوی،ج2،ص518،مطبوعہ وقارا لدین پبلیکیشنز، کراچی)

  جس چیز کا لینا ناجائز ہوتا ہے ، وہ دینا بھی ناجائز ہے ، لہٰذا دینے والے شخص کے لیے بھی یہ اجرت دینا جائز نہیں ہے ، چنانچہ الاشباہ والنظائر میں ہے:’’ما حرم اخذہ، حرم اعطاؤہ،کالربا‘‘ ترجمہ: جس چیز کا لینا حرام ہے، اس کا دینا بھی حرام ہے، جیسے سود۔(الاشباہ والنظائر، الفن الاول، القاعدۃ الرابعۃ عشرۃ، صفحہ 155، مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم