Kanche Khelna Kaisa Hai ?

کنچے کھیلنا کیسا؟

مجیب: مفتی محمد ہاشم خان عطاری مدنی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر2023

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گلی محلوں میں بچے اور نوجوان بانٹے کھیلتے ہیں جن کو کَنچے بھی کہا جاتا ہے۔ بانٹے کھیلنے کی مختلف صورتیں ہیں جن میں سے دو صورتیں درج ذیل ہیں:

   (1) ایک بچہ اپنے ہاتھ کے اندر کچھ بانٹے لےکر دوسرے سے پوچھتا ہے کہ جفت ہے یا طاق؟ اگر دوسرا صحیح بتادے  تو پوچھنے والا ہاتھ میں موجود سارے بانٹے دوسرے کو دے دیتا ہے،اور اگر غلط بتائے،  تو دوسرے کو اتنی تعداد میں بانٹے دینے پڑتے ہیں۔

   (2)بانٹے کے ذریعے بچے  نشانہ بناتے ہیں، اگر نشانہ صحیح  لگ جائے تو  وہ دوسرے سے طے شدہ بانٹے وصول کرتا ہے، اور دونوں صورتوں میں ایک وقت آتا ہے کہ ایک ہار کر خالی ہو جاتا ہے اور دوسرے کے پاس جیت کر بانٹے ڈبل ہو جاتے ہیں۔کیا یہ دونوں صورتیں قمار میں شامل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قرآن مجید میں مَیْسر کو حرام فرمایا گیا ہے اور مفسرین، محدثین،  شارحینِ حدیث، فقہاء سب نے ہر قسم کا جُوا مَیْسر میں شامل مانا ہے  تو جُوا بنصِ قرآن ناجائز وحرام ٹھہرا۔ اور کھیلوں میں جوئے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ غالب ہونے والے کےلئے مغلوب ہونے والے شخص سے کچھ لینے کی شرط لگادی جائے اور اسی ناجائز وحرام جوئے میں انہی علما نے بچوں کا اخروٹ والا کھیل بھی شامل بتایا ہے۔ صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اور  اب بھی بعض مقامات پر اخروٹ کا کھیل کھیلا جاتا ہے اور یہ بانٹوں کا کھیل اخروٹ کے کھیل کی طرح ہے۔ پہلے جب بانٹے نہیں ہوتے تھے تو اخروٹ کے ساتھ کھیلا جاتا تھا اور اب بانٹوں کے ساتھ، تو جو حکم اخروٹ کے کھیل کاہے وہی بانٹوں کے کھیل کا حکم ہوگا لہٰذا جس طرح اخروٹ کا کھیل جوا اور ناجائز وحرام ہے ایسے ہی بانٹوں کا کھیل بھی جوا اور ناجائز وحرام ہے جبکہ غالب ہونے والے کےلئے مغلوب ہونے و الے سے کچھ لینے کی شرط لگائی جائے اور سوال میں بیان کردہ دونوں صورتوں میں یہی خرابی ہے کہ غالب ہونے والے کے لئے مغلوب ہونے والے سے بانٹے لینے کی شرط لگائی جاتی ہے لہٰذا سوال میں مذکور بانٹا کھیل کی دونوں صورتیں جوا اور  ناجائز وحرام ہیں۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ خود کو اور اپنی اولاد کو اس حرام کام سے بچائیں۔

   ایک شبہ اور اس کا ازالہ:

   اس جواب پر ایک شبہ یہ وارد کیا جاسکتا ہے کہ اخروٹ تو واضح طور پر مال ہے جبکہ بانٹوں کا مال ہونا واضح نہیں تو پھر اس کے لین دین کی شرط جوا کیسے بن جائےگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح اخروٹ مال ہے ایسے ہی بانٹا بھی مال ہے کہ بانٹا شیشے سے بنتا ہے اور شیشہ واضح طور پر مال ہے اور بانٹوں کا لہو ولعب کےلئے ہونا اسے مال ہونے سے خارج نہ کردےگا ورنہ اخروٹ بھی مال نہ رہے اور فقہاء نے گائے ،بیل ،ہاتھی، گھوڑا، اور ان کے علاوہ دوسرے کھلونوں کے متعلق جو یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی اسے توڑدے تو اس پر تاوان نہیں اس لئے کہ اس کی کوئی قیمت نہیں وہاں کھلونوں کی تخصیص فرمائی کہ وہ مٹی کے ہوں تو یہ حکم ہے اور اگر لکڑی یا کسی دھات کے ہوں تو ان کو توڑنے سے لکڑی اور دھات کا توڑنے والے پر تاوان لازم ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم