Kya Bachon Ki Zimmedari Ki Wajah Se Hamal Zaya Karwa Sakte Hain ?

کیا بچوں کی ذمہ داری کی وجہ سے حمل ضائع کروا سکتے ہیں ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2633

تاریخ اجراء: 14 ذو الحجۃ الحرام 1445ھ /21 جون 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے چار بچے ہیں اور میری بیوی کے پہلے تین حمل ضائع بھی ہو چکے ہیں ۔ اب اسے دوبارہ حمل ہے ، جسے تین مہینے ہو چکے ہیں ۔ اس پر بچوں کی ذمہ داری بھی ہے ، گھر کی ذمہ داری بھی ہے اور خود اس کی طبیعت بھی گری گری رہتی ہے ، جبکہ میرا کام کے سلسلے میں بیرونِ ملک جانا ہوتا رہتا ہے ، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ وہ حمل ضائع کروا دے ۔ کیا اس صورت میں ہمیں ایسا کرنے کی اجازت ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں حمل ضائع کروانے کی اجازت نہیں، بلکہ ایسا کرنا   ناجائز و گناہ ہے ۔

   اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ اگر حمل ٹھہرے ہوئے چار مہینے یعنی 120 دن مکمل ہو گئے ہوں ، تو اسے ساقط یعنی ضائع کروانا  ناجائز و حرام اور ایک زندہ جان کا قتل ہے ، کیونکہ چار مہینے مکمل ہونے کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی اور جان پڑ جاتی ہے ۔ البتہ چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے اگر حمل ضائع کروانے کی کوئی صحیح قابلِ اعتبار مجبوری و ضرورت ہو ، تو اسے ضائع کروانا ، جائز ہے ، لیکن جب ایسی کوئی مجبوری نہ ہو ، تو ایک دن کا بھی حمل ساقط کروانا ، ناجائز و گناہ ہے ۔

   ضرورت و مجبوری کی مثال یہ ہے کہ مثلاً:پہلے سے دودھ پیتا بچہ موجود ہو ، حمل کی وجہ سے دودھ خشک ہو جائے گا اور دودھ کا کوئی دوسرا متبادل طریقہ بھی ممکن نہیں ہو گا ، جس کی وجہ سے پہلے والے دودھ پیتے بچے کے ہلاک ہونے کا خطرہ ہو گا یا اس کی پرورش میں شدید حرج ہو گا یا ماں کی صحت اتنی کمزور ہو کہ نئے بچے کی پیدائش سے دونوں میں سے کسی ایک کی جان کو شدید خطرہ ہوگا اور حمل ٹھہرے ہوئے چار مہینے بھی مکمل نہ ہوئے ہوں ، تو ایسی سخت مجبوری کی صورتوں میں حمل ساقط کروانا ، جائز ہے ، ورنہ جائز نہیں اور سوال میں بیان کی گئی تفصیل کے مطابق آپ کی زوجہ کی ایسی کوئی سخت مجبوری نہیں ہے ، جس میں حمل گرانے کی شرعاً اجازت ہو ۔ لہٰذا جن دنوں میں بیوی کے پاس کسی بڑے کا ہونا ضروری ہو ، تو آپ کو چاہیے کہ آپ بیرونِ ملک نہ جائیں،بلکہ گھر پر وقت دیں اور ضروری کاموں میں بیوی کا ہاتھ بٹائیں اور اگر بیرونِ ملک جانا ہی پڑے ، تو ایسا انتظام کریں کہ گھر میں آپ کی یا بیوی کی ماں یا بہن وغیرہ کوئی ایسی عورت آپ کی بیوی کے ساتھ رہے ، جو اس کا خیال رکھے اور ضرورت کے وقت مدد کر سکے ۔

   صحیح مجبوری و ضرورت کے بغیر چار ماہ سے کم کا حمل گرانا بھی ناجائز و گناہ ہے ۔ چنانچہ فتاوی قاضی خان میں ہے : ”واذا اسقطت الولد بالعلاج ۔۔۔ ان لم یستبن شئ من خلقہ ۔۔۔ فلا اقلّ من ان يلحقها اثم ھهنا اذا اسقطت بغير عذر ، الّا لا تأثم اثم القتل “ ترجمہ :  دواءکے ذریعے عورت کا حمل ساقط کروانا ، اگرچہ بچے کے اعضاء نہ بنے ہوں (یعنی اس میں جان نہ پڑی ہو) ، اس کا کم سے کم حکم یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری کے بغیر حمل ساقط کروایا ، تو عورت گنہگار ہو گی ، البتہ قتل والا گناہ نہیں ہو گا۔(فتاوی قاضی خان، ج3،ص312،مطبوعہ کراچی)

   در مختار میں ہے : ”ویکرہ ان تسقی لاسقاط حملھا وجاز لعذر حیث لا یتصور “ ترجمہ : عورت کا حمل ساقط کروانے کے لیے اسے دوائی پلانا مکروہ ہے اور مجبوری ہو ، تو بچے کی شکل بننے (یعنی اس میں جان پڑنے) سے پہلے جائز ہے ۔

   جاز لعذر کے تحت رد المحتار میں ہے : ” کالمرضعۃ اذا ظھر لھا الحبل وانقطع لبنھا ولیس لابی الصبی ما یستاجر بہ الظئر ویخاف ھلاک الولد ، قالوا : یباح لھا ان تعالج فی استنزال الدم ما دام الحمل مضغۃ او علقۃ ولم یخلق لہ عضو وقدروا تلک المدۃ بمائۃ وعشرین یوما وجاز لانہ لیس بآدمی وفیہ صیانۃ الآدمی ، خانیۃ “ ترجمہ : جیسا کہ پہلے سے موجود بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو حمل ٹھہر جائے اور اس کا دودھ خشک ہو جائے اور بچے کے باپ کے پاس اتنا مال نہ ہو ، جس سے کسی دایہ (دودھ پلانے والی) کو تنخواہ پر رکھ سکے اور (پہلے والے) بچے کے فوت ہو جانے کا خوف ہو، تو فقہائے کِرام فرماتے ہیں کہ اس عورت کے لیے (اس مجبوری سے) حمل ساقط کروانا ، جائز ہے ، بشرطیکہ وہ گوشت کی بوٹی یا جما ہوا خون ہو اور اس کا کوئی عضو نہ بنا ہو اور فقہا نے اس کی مدت ایک سو بیس دن مقرر کی ہے ، کیونکہ اس (مدت) سے پہلے تک وہ آدمی نہیں اور ایسا کرنے میں پہلے سے موجود آدمی (زندہ بچے) کی جان بچانا پایا جا رہا ہے ۔(رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الحظر والإباحۃ ، ج9 ، ص709 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   امامِ اہلِسنت سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’جان پڑ جانے کے بعد اسقاطِ حمل حرام ہے اور ایسا کرنے والا گویا قاتل ہے اور جان پڑنے سے پہلے اگر کوئی ضرورت ہے ، تو حرج نہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ ، ج24 ، ص207 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :اسقاطِ حمل کے لیے دوا استعمال کرنا یا دائی سے حمل ساقط کرانا منع ہے۔ بچہ کی صورت بنی ہو یا نہ بنی ہو ، دونوں کا ایک حکم ہے ۔ ہاں اگر عذر ہو مثلاً: عورت کے شِیر خوار (دودھ پیتا) بچہ ہے اور باپ کے پاس اِتنا نہیں کہ دایہ مقرر کرے یا دایہ دستیاب نہیں ہوتی اور حمل سے دودھ خشک ہو جائے گا اور بچہ کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہے ، تو اس مجبوری سے حمل ساقط کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے اعضا نہ بنے ہوں اور اس کی مدت ایک سو بیس دن ہے۔“(بھارِ شریعت ، حصہ16 ، ج03 ، ص507 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   بحر العلوم حضرت مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:بغیر کسی شدید قسم کی شرعی ضرورت (مثلاً عورت کی ہلاکت کا خطرہ ہو) یا استقرار کی وجہ سے دودھ پینے والے بچہ کی جان کو اندیشہ ہو، اسقاطِ حمل ناجائز وگناہ ہے ، بالخصوص اس صورت میں کہ بچے کے اعضاء بن چکے ہوں۔ایسا مشورہ دینے والوں کو توبہ کرنا چاہیے ۔ (فتاوی بحرالعلوم ، ج2 ، ص608 ، مطبوعہ شبیر برادرز ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم