مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-2444
تاریخ اجراء: 25رجب ا لمرجب1445 ھ/06فروری2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
شرح حدیث کی
ایک کتاب میں یہ دیکھا کہ کسی غرض صحیح اور
مقصد صحیح کے لئے غیبت کرنا جائز ہے،حالانکہ بقیہ کتابوں میں
اسے مطلقا حرام قرار دیا جاتا ہے ،اس کی کیا وجوہات ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بسا اوقات ایسا
ہوتا ہے کہ کوئی صورت بظاہر غیبت
کی ہوتی ہے کہ اس میں کسی شخص کی غیرموجودگی میں اس
میں موجود عیب کو بیان کیا جا رہا ہوتا ہے لیکن وہ
حقیقت میں غیبت میں داخل نہیں ہوتی،کہ اس کی
کوئی صحیح غرض اور صحیح مقصد ہوتا ہے،اس طرح کی صورتوں کو
خود قرآن وحدیث میں مذموم غیبت سے جدا کرکے جائز قرار دیاہے۔
لہٰذا جن کتابوں میں
غیبت کومطلقا حرام قرار دیا
ہے وہاں غیبت کی حقیقی
اور مذموم صورتیں مراد ہیں،ورنہ جائز غرض و مقصد کے لئے کسی شخص میں موجود برائی سے
آگاہ کرنا بالکل جائز ہے بلکہ بسا اوقات واجب ہوجاتا ہے،اس کی کئی
مثالیں کتب میں مذکور ہیں اس کے لئے كتاب’’غیبت کی
تباہ کاریاں‘‘ یا بہارشریعت ج03،ص532 تا 536مطبوعہ مکتبۃ
المدینہ تک کا مطالعہ کریں۔
اللہ رب العزت قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے:” لَا
یُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا
مَنْ ظُلِمَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا “ترجمہ کنز العرفان: بری
بات کا اعلان کرنا اللہ پسند نہیں کرتا مگر مظلوم سے اور اللہ سننے والا
جاننے والا ہے۔
مذکورہ آیت
کے تحت صراط الجنان میں ہے:” ایک قول یہ ہے کہ بری بات کے
اعلان سے مراد کسی کے پوشیدہ معاملات کو ظاہر کرنا ہے جیسے کسی
کی غیبت کرنا یا کسی کی چغلی کھانا وغیرہ۔(جمل، النساء،
تحت الآیۃ: ۱۴۸، ۲ / ۱۴۴)یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ اس بات کو پسند
نہیں فرماتا کہ کوئی شخص کسی کے پوشیدہ معاملات کو ظاہر
کرے۔“
آگے مذکور ہے:” آیت
میں مظلوم کو ظلم بیان کرنے کی اجازت دی گئی۔
اس سے معلوم ہوا کہ مظلوم، حاکم کے سامنے ظالم کی برائی بیان کر
سکتا ہے، یہ غیبت میں داخل نہیں۔ اس سے ہزارہا
مسائل معلوم ہو سکتے ہیں۔ حدیث کے راویوں کا فسق یا
عیب وغیرہ بیان کرنا، چور یا غاصب کی شکایت
کرنا، ملک کے غداروں کی حکومت کو اطلاع دینا سب جائز ہے۔ غیبت
کے جواز کی جتنی بھی صورتیں ہیں وہ سب کسی نہ
کسی بڑے فائدے کی وجہ سے ہیں۔“(صراط الجنان،
ج02،ص381، 383،مکتبۃ المدینۃ ،کراچی)
بہار شریعت میں
ہے:” حدیث کے راویوں اور مقدمہ کے گواہوں اور مصنفین پر جرح
کرنا اور ان کے عیوب بیان کرنا جائز ہے اگر راویوں کی
خرابیاں بیان نہ کی جائیں تو حدیث صحیح اور غیر
صحیح میں امتیاز نہ ہوسکے گا۔ اسی طرح مصنفین
کے حالات نہ بیان کیے جائیں تو کتب معتمدہ وغیرمعتمدہ میں
فرق نہ رہے گا۔ گواہوں پر جرح نہ کی جائے تو حقوق مسلمین کی
نگہداشت نہ ہوسکے گی، اول سے آخر تک گیارہ صورتیں وہ ہیں،
جو بظاہر غیبت ہیں اور حقیقت میں غیبت نہیں
اور ان میں عیوب کا بیان کرنا جائز ہے، بلکہ بعض صورتوں میں
واجب ہے۔“ (بہار شریعت،ج 3،حصہ 16، ص535، 536،مکتبۃ المدینۃ،
کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
غیر مسلم سے زنا کاحکم؟
زانیہ بیوی سے متعلق حکم
کیا آئندہ گناہ کرنے کی نیت سے بھی بندہ گنہگار ہوجاتاہے؟
سجدۂ تحیت کے متعلق حکم
پلاٹ کی رجسٹری کے نام پر مٹھائی لینا کیسا؟
رشوت کے تحفے کا حکم
شراب پینے سے کب وضو ٹوٹے گا؟
امتحانات میں رشوت لے کر نقل کروانا کیسا ؟