Kya Masjid Haram Ke Ilawa Hudood e Haram Mein Bhi Neki Aur Gunah 1 Lakh Ke Barabar Hai?

کیا مسجد حرام کے  علاوہ حدود حرم  میں بھی نیکی و گناہ ایک لاکھ کے برابر ہے ؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8395

تاریخ اجراء:19ذو الحجۃ الحرام1444ھ/08جولائی2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ  اگر کوئی مسجد حرام کے علاوہ حدود ِحرم میں نیکی یاگناہ کرتا ہے، تو کیا وہ بھی لاکھ کے برابر ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایک نیکی پر لاکھ نیکیوں کے برابر ثواب یا ایک گناہ کا لاکھ گناہوں کے برابر وبال صرف مسجدالحرام سے خاص نہیں، بلکہ مکمل  شہرِ مکہ کا یہی حکم ہے۔ خود نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے بصراحت شہرِ مکہ میں ایک رمضان  اور اُس کے روزوں کو ایک لاکھ رمضان کے مہینوں کے برابر قرار دیا۔ اِسی طرح  جلیل القدر تابعی حضرت ابو سعید امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مکہ مکرمہ میں ایک روزے کو ایک لاکھ روزوں اور ایک درہم  صدقہ کرنے کو ایک لاکھ درہم  صدقہ کرنے کے مساوی فرمایا۔حضرت ِ ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے  مکہ مکرمہ سے ہٹ کر طائف کو  قیام گاہ بنانے کے متعلق سوال ہوا، تو آپ نے خوفِ خدا اور بربنائے تقویٰ ارشاد فرمایا:میں اُس شہر میں کیسے مستقل قیام رکھوں کہ جہاں نیکیوں کی طرح گناہوں کا وبال بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، لہذا معلوم ہوا کہ نیکی یا گناہ کی لاکھ سے برابری مسجد الحرام ہی نہیں، بلکہ پورے شہرِ مکہ  کو محیط ہے۔

   ابو عبدالله امام محمد بن ماجہ  قُزوینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ]وِصال 273ھ/887ء[ روایت نقل کرتے ہیں:’’عن ابن عباس، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:من أدرك رمضان بمكة فصامه وقام منه ما تيسر له، كتب اللہ له مائة ألف شهر رمضان فيما سواها‘‘ترجمہ:حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے، آپ بتاتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:جس نے مکہ مکرمہ میں ماہِ رمضان پایا اور اُس کے روزے رکھے اور جتنا میسر آیا، قیام کیا،  تو اللہ تعالیٰ اُس کے لیے مکہ کے علاوہ کسی اور مقام پر  ایک لاکھ رمضان کے مہینوں کے برابر  ثواب عطا فرمائے گا۔(سنن ابن ماجۃ، جلد04، باب صوم شهر رمضان بمكہ، صفحہ296، مطبوعه دار الرسالۃ العالمیہ )

   اِس حدیث کی شرح کرتے ہوئے نور الدین علامہ علی قاری حنفی]وِصال:1014ھ/1605ء[ لکھتے ہیں:’’ثم المضاعفة لا تختص بالصلاة بل تعم سائر الطاعات، وبه صرح الحسن البصري فقال: ‌صوم ‌يوم ‌بمكة بمائة ألف، وصدقة درهم بمائة ألف، وكل حسنة بمائة ألف۔۔۔ وذهب جماعة من العلماء إلى أن السيئات تضاعف بمكة كالحسنات‘‘ترجمہ:پھر یہ اضافہ صرف نماز کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ (شہرِ مکہ میں کی جانے والی)ساری نیکیوں اور عبادتوں کو شامل ہے۔ اِسی چیز کی صراحت حضرت امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کی ہے، چنانچہ فرمایا:مکہ میں ایک دن کا روزہ ایک لاکھ روزوں کے برابر ہے۔ ایک درہم کا صدقہ ایک لاکھ درہم کے مساوی ہے اور ہر نیکی ایک لاکھ کے برابر ہے۔علمائے دین کی ایک جماعت نے یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ مکہ مکرمہ میں نیکیوں میں اضافہ ہونے کی طرح گناہوں کے وبال میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد02،کتاب الصلوٰۃ،  صفحہ369، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

   اوپر والی سنن ابنِ ماجہ اور دیگر چند روایات نقل کرنے کے بعد ابو البقاء علامہ احمد مکی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ]وِصال:854ھ/1450ء[ نے لکھا:’’قال محب الدين الطبري : وفي أحاديث مضاعفة الصلاة أو الصوم، دليل على اطراد التضعيف في جميع الحسنات  إلحاقاً بهما۔۔۔ قال وهذا الحديث يدل على أن المراد بالمسجد الحرام في فضل تضعيف الصلاة بالحرم جميعه؛ لأنه عمم التضعیف فی جمیع الحرم وکذلک حدیث تضعیف الصوم عممہ فی جمیع مکۃ وحکم الحرم ومکۃ فی ذلک سواء باتفاق‘‘ ترجمہ:امام محب الدین طبری  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:نماز و روزے کے ثواب میں اضافے والی احادیث ، تمام نیکیوں کے ثواب میں اضافہ ہو جانے پر دلیل ہیں۔(اِس کے بعد امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا اثر نقل کیا)اور فرمایا:حرم میں نماز کے زیادہ ثواب میں وارِد حدیث میں ”مسجدِ حرام “سے مراد سارا حرم ہی ہے اور یونہی روزے کے ثواب میں اضافے کو بیان کرتے ہوئےآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سارے  مکہ کو عام رکھا اور بالاتفاق ”مضاعفتِ ثواب“ کی بشارت  میں حرم اور مکہ کا حکم برابر ہے۔(یعنی جس طرح زیادہ ثواب حرم میں  حاصل ہو گا، یونہی مکمل مکہ میں بھی حاصل ہو گا۔( البحر العمیق، جلد03، الباب العاشر فی دخول مکۃ، صفحہ 1321، مطبوعہ  مؤسسۃ الریَّان، بیروت)

   اِسی کتاب میں ہے:’’قد سئل عن مقامہ بغیر مکۃ فقال ما لی ولبلد تضاعف فیھا السیئات کما تضاعف الحسنات‘‘ترجمہ:حضرت ِ ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے   مکہ مکرمہ سے ہٹ کر دوسری جگہ قیام کرنے کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا:مجھے کیا ہے کہ میں  اُس شہر میں مستقل قیام رکھوں، جہاں نیکیوں کی طرح گناہوں کا وبال بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔(البحر العمیق، جلد03، الباب العاشر فی دخول مکۃ، صفحہ 1322، مطبوعہ  مؤسسۃ الریَّان، بیروت)

   امامِ اہلِ سنَّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ]وِصال:1340ھ/1921ء[ فرماتے  ہیں:’’اور تَفَاوُتِ ثَوَاب (یعنی ثواب میں   فرق) کا جواب باصواب (یعنی درست جواب)شیخ محقق (شاہ )عبد الحق (محدث) دہلوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کیا خوب دیا کہ: ’’ مکہ میں   کمیت زیادہ ہے اور مدینہ میں   کیفیت ، یعنی وہاں  ’’ مقدار‘‘ زیادہ ہے اور یہاں’’ قدر‘‘ اَفْزوں   (زیادہ)۔ جسے یوں سمجھیں   کہ لاکھ روپیہ زیادہ کہ پچاس ہزار اشرفیاں؟ گنتی میں وہ (یعنی لاکھ روپے) دُونے ہیں اور مالیت میں یہ (یعنی پچاس ہزار اشرفیاں  ) دس گُنی ۔ مکہ معظمہ میں   جس طر ح ایک نیکی لاکھ نیکیاں   ہیں، یوں   ہی ایک گناہ لاکھ گناہ ہیں   اوروہاں   گناہ کے اِرادے پر بھی گرفت ہے،  جس طر ح نیکی کے اِرادے پر ثواب ۔ مدینہ طیبہ میں   نیکی کے اِرادے پر ثواب اور گناہ کے اِرادے پر کچھ نہیں   اور گناہ کرے توایک ہی گناہ اور نیکی کرے تو پچاس ہزار نیکیاں۔عجب نہیں   کہ حدیث میں  ’’خَیْرٌ لَّھُمْ ‘‘کا اِشارہ اِسی طر ف ہو کہ ان کے حق میں   مدینہ ہی بہتر ہے۔‘‘(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، صفحہ237، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  ]وِصال:1367ھ/1947ء[ لکھتے ہیں:’’ مکہ معظمہ میں معصیت کرنا نہایت سخت بات ہے کہ یہاں جس طرح ایک نیکی لاکھ کے برابر ہے۔ یوہیں ایک گناہ لاکھ گناہ کے برابر۔(بھار شریعت، جلد1، صفحہ1110، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   مفتی شریف الحق امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  ]وِصال: 1421ھ/2000ء[ ایک روایت کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:’’حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ یہ زیادتی صرف نماز کے ساتھ خاص نہیں۔ ہر طاعت پر یہ زیادتی ہے اور فرمایا کہ مکہ معظمہ  میں ایک روزہ لاکھ روزہ کے برابر ہے اور ایک درہم کا صدقہ لاکھ کے برابر بلکہ ہر نیکی لاکھ کے برابر ہے ۔ اس بارے میں ایک حدیث حسن بھی مروی ہے کہ ارشاد فرمایاکہ حرم کی ایک نیکی لاکھ کے برابر ہے۔ علاوہ ازیں ابنِ ماجہ نے حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے یہ حدیث روایت کی ہے کہ فرمایا جس نے مکے میں رمضان پایا اور روزہ رکھا اور جتنا میسر آیا قیام کیا،  تو اس کے لیے دوسری جگہوں کے رمضان کی بنسبت لاکھ رمضان کا ثواب لکھا جائے گا۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا کہ حضرت ابن عباس حضرت ابن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور امام مجاہد ، امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما اور دوسرے حضرات کا مذہب یہ ہے کہ مکہ معظمہ میں ایک گناہ بھی لاکھ گناہ کے برابر ہے۔ ظاہر ہے کہ بادشاہ کے روبرو اس کے دربار میں اس کی حکم عدولی جتنی سنگین ہے، اتنی بادشاہ کے دربار کے باہر سنگین نہیں ۔(نزھۃ القاری شرح بخاری ، جلد 02،صفحہ  710،مطبوعہ فرید بک سٹال،لا ھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم