Najoomi Ko Hath Dikhana Kaisa?

نجومی کو ہاتھ دکھانا کیسا

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:aqs:1283

تاریخ اجراء:17جمادی الثانی1439ھ/06 مارچ2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قسمت معلوم کرنے کے لیے نجومی کو ہاتھ دکھانا کیسا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     اگر اس عقیدے کے ساتھ نجومی سے قسمت کا حال پوچھا کہ جو یہ بتائے گا ، وہ قطعاً یقیناً حق ہوگا ، تو یہ کفر ہے اور اگر یہ اعتقاد تو نہ ہو ، لیکن صرف رغبت و شوق کی وجہ سے ہو ، تو گناہِ کبیرہ و فسق ہے اور اگر مذاق کے طور پر ہو، تو مکروہ ہے اور اگر نجومی کو ہاتھ دکھانا اس کو عاجز کرنے کے لیے ہو ، تو حرج نہیں ہے ، لیکن یہ آخری صورت کم ہی پائی جاتی ہے اور عموماً رغبت و شوق سے ہی دکھایا جاتا ہے ، جو حرام و گناہ کبیرہ ہے۔

     سنن ابن ماجہ میں ہے :’’ من اتى حائضا او امرأة فی دبرها او كاهنا فصدقہ بمایقول فقد كفر بما انزل على محمد  صلى الله عليه و سلم ‘‘ترجمہ : جو حائضہ عورت سے یا عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرے یانجومی کے پاس جائے اور اس کے کہے کی تصدیق کرے ، تو اس نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم پر اترے ہوئے کا انکار کیا ۔(سنن ابن ماجہ ، ابواب الطہارۃ ، باب النہی عن اتیان الحائض ، صفحہ 47 ، مطبوعہ کراچی )

     سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ’’ کاہنوں اور جوتشیوں سے ہاتھ دکھا کر تقدیر کا بھلا ، برا دریافت کرنا اگر بطور اعتقاد ہو یعنی جویہ بتائیں حق ہے ، تو کفر خالص ہے۔ اسی کو حدیث میں فرمایا :’’فقد کفر بما نزل علی محمد صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم‘‘( یعنی ) بے شک اس سے انکار کیا جو کچھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پراتارا گیا اور اگر بطور اعتقاد وتیقن نہ ہو ، مگر میل ورغبت کے ساتھ ہو ، توگناہ کبیرہ ہے۔اسی کو حدیث میں فرمایا : ’’لم یقبل ﷲ لہ صلوۃ اربعین صباحا‘‘اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ فرمائے گا اور اگر ہزل واستہزاء ہو ، تو عبث ومکروہ ، حماقت ہے، ہاں اگر بقصدِتعجیز(یعنی نجومی کو عاجز کرنے لیے) ہو ، تو حرج نہیں ۔‘‘ ( فتاویٰ رضویہ ، جلد 21 ، صفحہ 155 ، 156 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

     مفسرِ شہیر مفتی احمد یار نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اوپر مذکورابن ِ ماجہ کی  حدیث شریف کی یوں شرح فرمائی ہے: ’’خیال رہے کہ یہاں سے شرعی کفر ہی مراد ہے، ( یعنی جو کفر ) اسلام کا مقابل(ہے )۔۔۔( یہ اس صورت میں ہے کہ جب ) کاہن نجومی کوعالم الغیب جان کراس سے فال کھلوائیں یاغیبی خبریں پوچھیں اوراگر گناہ سمجھ کر یہ کام کریں ، تو فسق ہے،کفر نہیں یا یہاں کفر سے مراد لغوی معنی ہیں  ناشکری ۔‘‘ ( مراۃ المناجیح ، کتاب الطہارت ، حیض کا باب ، دوسری فصل ، جلد 1 ، صفحہ 351 ، مطبوعہ ضیاء القرآن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم