Papers Me Cheating Karna Kaisa ?

امتحان میں نقل کرنا کیسا؟

مجیب: مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر: mul-22

تاریخ اجراء: 27شوال المکرم 4214ھ/08 جون 21 20ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ امتحان میں نقل کرنے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   امتحان میں نقل کرنا ناجائز و حرام ہے ۔اولاًاس لیے کہ نقل کرنے میں نگرانی کرنے والوں ،پیپر چیک کرنے والوں اور اس ڈگری کے ذریعے نوکری دینے والوں کے ساتھ دھوکا ہے ،حالانکہ احادیث کریمہ میں دھوکا دینے سے منع فرمایا گیا ہے۔ ثانیًا اس لیے کہ نقل کرنے میں بغیر نقل پیپر دینے والے طلبہ کی حق تلفی ہے اور یہ بھی ناجائز ہے۔

   دھوکا دینے والے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ من غشنا فلیس منا‘‘ ترجمہ: جو ہمیں دھوکا دے ،وہ ہم میں سے نہیں۔ (الصحیح لمسلم،کتاب  الایمان  ،صفحہ57،  مطبوعہ بیروت)

   بخاری شریف کی حدیث ہے:’’ عن ابن عمر رضی اللہ عنھماعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : الغادر یرفع لہ لواء یوم القیامۃ یقال ھذہ غدرۃ فلان بن فلان‘‘ ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیا مت والے دن دھوکےباز کےلیے جھنڈا بلند کیا جائے گااور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دھوکا بازی ہے۔(الصحیح لبخاری ،کتاب الادب ،باب یدعی الناس بآبائھم ،صفحہ1132  ، مطبوعہ بیروت)

   کنز العما ل میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حدیث پاک ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’لیس منا من  غش مسلما او ضرہ او ماکرہ‘‘ ترجمہ : وہ ہم میں سے نہیں جو مسلمان کو دھوکا دےیا اسے ضرر پہنچائے یا فریب دے۔(کنز العمال ،کتاب  الاخلاق   ،جلد 2،صفحہ218 ،مطبوعہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم