کیا پانی کی خریدوفروخت جائز ہے؟

مجیب:مفتی فضیل صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Har-5584

تاریخ اجراء:08صفر المظفر1441 ھ/08اکتوبر2019 ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں واٹر سپلائی کا کام کرتا ہوں، ہمارے علاقے میں  ایک آراو پلانٹ(RO Plant) لگا ہوا ہے ،جس میں بورنگ  کے ذریعے زمین سے کھارا پانی نکال کر اسے میٹھا اور صاف کیا جاتا اور پھر اسے  فروخت کیا جاتا ہے ۔ میں وہاں سے پانی خرید کر مناسب قیمت پر  فروخت کرتا ہوں ۔معلوم یہ کرنا ہے کہ  اس طرح پانی کی خرید و فروخت شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    واٹر پلانٹ سے پانی خریدنا اور پھر اسے آگے بیچنا، شرعاً جائز ہے، اس میں حرج نہیں کیونکہ پانی جب تک اپنی اصل جگہ مثلاً  دریا، کنویں وغیرہ میں موجود ہے،اس وقت تک وہ کسی کی ملک نہیں ، مباح ہے،لیکن اگر اسےوہاںسے  نکال کر اپنے پاس کسی حوض ، ٹینکی،کین ،بوتل وغیرہ میں جمع کرلیا جائے ،تو  وہ جمع کرنے والے کی  ملک ہوجاتا ہے، پھر اگر وہ اس پانی کو بیچنا چاہے، تو بیچ بھی سکتا ہے۔آراوپلانٹ(RO Plant)کا پانی بھی احرازکردہ ہوتا ہے  کہ اس میں بورنگ کے ذریعےزمین سے کھارا پانی نکال کراسے مختلف مراحل سے گزار کر میٹھا اور صاف کرنے کے بعد مختلف ٹینکوں میں محفوظ کیا جاتا اور پھر اسے  بیچا جاتا ہے،لہٰذا وہاں سے پانی خریدنا اور پھر اس مملوک پانی کو بیچنا،شرعاً  جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ۔

    پانی کی بیع سے متعلق مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر میں ہے :’’(وما احرز من الماء بحب و کوز  و نحوہ لایوخذ الا برضی صاحبہ و لہ )ای لصاحب الماء المحرز (بیعہ )ای بیع الماء لانہ ملکہ بالاحراز و صار کالصید اذا اخذہ ۔‘‘اور جو پانی ،مٹکا، کوزہ وغیرہ کسی برتن میں جمع کرکے محفوظ کرلیا گیا، اسے مالک کی مرضی کے بغیر نہیں  لیا جائے گا اور اس یعنی محفوظ کردہ پانی کے مالک کے لئے اسے بیچنا یعنی پانی کو بیچنا جائز ہے ،کیونکہ احراز کرنے کی وجہ سے وہ اس کا  مالک ہوگیا اور یہ ایسا ہے کہ جیسے شکار کہ جب کوئی اسے پکڑ لے۔  

(مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر، ج 4، ص 237، مطبوعہ کوئٹہ)

    متن تنویرالابصار اور شرح درمختار میں ہے :’’(والمحرز فی کوز و حب لاینتفع بہ الا باذن صاحبہ) لملکہ باحرازہ ۔ملخصا‘‘اور کوزے یا مٹکے میں جمع کردہ پانی سے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر نفع حاصل نہیں کیا جائے گا کہ احراز کی وجہ سے وہ اس کا مالک ہوچکا ہے۔

(متن تنویر الابصار و درمختار مع ردالمحتار، ج 10، ص 17، مطبوعہ کوئٹہ )

    علامہ محقق ابن عابدین الشامی علیہ الرحمۃ مذکورہ عبارت کے تحت ارشادفرماتے ہیں:’’مثلہ المحرز فی الصھاریج التی توضع لاحراز الماء فی الدور کما حررہ الرملی فی فتاواہ و حاشیتہ علی البحر و افتی بہ مراراً وقال :ان الاصل قصد الاحراز و عدمہ ومما صرحوا بہ لو وضع رجل طستاً علی سطح فاجتمع  فیہ ماء المطر فرفعہ آخر:ان وضعہ الاول لذلک فھو لہ و الا فللرافع۔اھ ویشھدلہ ماقدمناہ عن القہستانی ۔ قولہ (لاینتفع بہ الخ) اذ لاحق فیہ لاحد کما قدمناہ ۔قولہ (لملکہ باحرازہ) فلہ بیعہ۔ملتقی‘‘اسی کی مثل وہ پانی ہے کہ جو صہاریج کہ جو گھروں میں پانی محفوظ کرنے کے لیے رکھے جاتے ہیں ان میں جمع کیا جائے، جیسا کہ  علامہ رملی نے اس کی تنقیح و تحریر اپنے فتاوی اور بحر  پر تحریر کردہ  اپنے حاشیہ میں فرمائی اور متعدد مقامات پر اس کا فتوی دیا اور فرمایا :اصل معیار ،احراز کا قصد ہونا یا نہ ہونا ہے اور فقہاء نےجن مسائل میں اس کی تصریح فرمائی ان میں یہ مسئلہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص چھت  پر طشت رکھے ،پھر اس میں بارش کا پانی جمع ہوجائے اور وہ پانی کوئی دوسرا اٹھالے (کہ اس میں صراحت فرمائی کہ )اگر پہلے شخص نے یہ طشت  اسی کام (یعنی پانی جمع کرنے )کے لیے رکھاتھا ،تو وہ پانی اس کا ہے ورنہ اٹھانے والے کا۔ اھ اور قہستانی سے ہم نے جو پہلے ذکر کیا وہ بھی اس کا شاہد ہے۔ متن کی عبارت کہ (اس سے بغیر اجازت نفع نہیں اٹھایا جائے گا ) اس لیے ہے کہ احراز کی وجہ سے اس میں اب (مالک کے علاوہ )کسی کا کوئی حق نہیں جیسا کہ پہلے گزرا۔شرح کی عبارت(احراز کی وجہ سے وہ مالک ہوگیا ) تو اب اسے بیچنا بھی جائز ہے۔ بحوالہ ملتقی

(ردالمحتار، ج 10 ، ص 17 ، مطبوعہکوئٹہ )

    صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ پانی کی مختلف اقسام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :’’چوتھے ، وہ پانی جس کو گھڑوں ، مٹکوں یا برتنوں میں محفوظ کردیا گیا ہو ، اس کو بغیر اجازت ِ مالک کوئی شخص صرف میں نہیں لاسکتا  اور اس پانی کو اس کا مالک بیع بھی کرسکتاہے۔‘‘

(بھارشریعت، ج 3، ص 667،مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

    ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:’’بعض جگہ مکانوں میں حوض بنارکھتے ہیں، برساتی پانی اس میں جمع کرلیتے ہیں اور اپنے استعمال میں لاتے ہیں عربی میں ایسے حوض کو صہریج کہتے ہیں۔ یہ پانی خاص اس شخص کی ملک ہے جس کے گھر میں ہے اور یہ پانی ویسا ہی ہے، جیسا گھڑے وغیرہ میں بھرلیا جاتا ہے کہ بغیر اجازت مالک کوئی شخص اپنے کسی صرف میں نہیں لاسکتا ۔ملخصا‘‘

(بھارشریعت، ج 3 ، صفحہ 668، مطبوعہمکتبۃ المدینہ ،  کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم