شرعی وزن سے زائد اور سونے کی مردانہ انگوٹھی بیچنے اور اس کی آمدن کا حکم ؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6581

تاریخ اجراء:13صفر المظفر1442ھ01اکتوبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں  کہ

    (1)شرعی وزن سے زائد وزن کی چاندی کی مردانہ انگوٹھی اور سونے کی مردانہ  انگوٹھی کی خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟

    (2)اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    (1)غیرشرعی انگوٹھی مثلاً چاندی کی مردانہ انگوٹھی ، جو  ساڑھے چار ماشے کے برابر یا اس  سے زائد وزن کی ہو یا اس میں  دو نگ لگے ہوں  یا مَردانہ بناوٹ کی سونے کی انگوٹھی وغیرہ بنانا اور اس کی خرید و فروخت کرنا ،ناجائز و گناہ ہے ، کیونکہ شریعتِ مطہرہ کا ایک  بنیادی اصول ہے کہ جن چیزوں کا استعمال جائزنہیں، تو گناہ پر معاونت کی وجہ سے ان چیزوں کو بنانا اور  خریدنا بیچنا بھی جائزنہیں ہے ، لہٰذا مَرد کے لیے جو انگوٹھی پہننا حرام ہے ، ایسی انگوٹھی بنانا اور اس کی خرید و فروخت بھی  جائز نہیں کہ اس میں گناہ پر معاونت  ہے اور گناہ پر  معاونت  کرنا بھی گناہ ہے۔

    گناہ کےکام پرمعاونت جائزنہیں ہے۔چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشادفرماتاہے:﴿ وَتَعَاوَنُوۡا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ۪ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ترجمہ کنز الایمان:نیکی اورپرہیزگاری پرایک دوسرے کی مددکرواورگناہ اورزیادتی پرباہم مددنہ کرو۔  (پارہ6،سورۃ المائدۃ،آیت2)

    امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’یہ اصل کلی یاد رکھنے کی ہے کہ بہت جگہ کام دے گی۔ جس چیز کا بنانا ، ناجائز ہوگا، اسے خریدنا، کام میں لانا بھی ممنوع ہوگا اور جس کا خریدنا،کام میں لانا منع نہ ہوگا، اس کا بنانا بھی ناجائز نہ ہوگا۔ “

(فتاویٰ رضویہ ،ج 23 ،ص 464، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    اس کی ایک نظیر یہ ہے کہ جن جوتوں پر چاندی کا کام ہوا ہو، ایسے جوتے مَردوں کے ہاتھ بیچنا مکروہِ تحریمی ہے، کیونکہ ایسا جوتا مَرد کو پہننا جائز نہیں ، لہٰذا اس کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں کہ اس میں گناہ پر معاونت   ہو گی۔چنانچہ علامہ ابن نجیم علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’وبيع المكعب المفضض للرجال اذا علم انہ يشتريه ليلبسه يكره لانه اعانة له على لبس الحرام ‘‘ترجمہ:مَردوں کے ہاتھ چاندی کے کام والے جوتے  کی بیع کرنامکروہ ہے،جبکہ معلوم ہوکہ یہ پہننے کے لئے خرید رہا ہے،کیونکہ یہ حرام چیز پہننے  پر اعانت ہے۔

(البحر الرائق،ج8،ص371،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

    اور امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ اس بارے میں فرماتے ہیں:”وکذا بيع الجارية المغنية فان الجارية للاستخدام والافتراش والغناءفلم تكن المعصية هي المقصودة وكذا الكبش يكون للنسل وللاكل وكذا الحمامة للاستئناس والاكل وكذا الخشب للايقاد واصطناع السرير والمعازف بخلاف بيع المكعب المفضض فان وضعه انما هو للبس لا غير وهو المقصود الاعظم منه وفيه المعصية فيكره بيعه“ترجمہ:اور اسی طرح مغنیہ (گیت گانے والی)لونڈی کی بیع جائز ہے،کیونکہ لونڈی خدمت حاصل کرنے،صاحب فراش بنانے اور گانا گانے کے لئے ہوتی ہے،تو ایسی لونڈی خریدنے سے مقصود معصیت نہیں ہو گی ۔ اسی طرح مینڈھا نسل حاصل کرنے اور گوشت کھانے کے لئے ہوتاہے،اسی طرح کبوتر انسیت حاصل کرنے اور کھانے کے لئے ہوتا ہےاوراسی طرح  لکڑی جلانے ،چار پائی بنانے اور آلاتِ لہو ولعب بنانے کے لئے ہوتی ہے۔(لہذا ان سب کی بیع جائز ہے)برخلاف چاندی کے کام والے جوتے کی بیع کے کہ  اس کی وضع ہی پہننےکے لئے ہوتی ہے، نہ کہ کسی اور کام کے لیے اور اس سے مقصودِ اعظم بھی پہننا ہی ہوتا،حالانکہ اسے پہننے میں معصیت ہے،لہذا اس کی بیع مکروہ ہے۔

 (جد الممتار،ج7،ص 76 ،مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

    نوٹ:مردکےلیے چاندی کی ایک انگوٹھی،وہ بھی ایک نگ والی،جووزن میں ساڑھےچار ماشے(یعنی 4 گرام 374 ملی گرام)سےکم ہو، پہننا جائز ہے اور مَرد  کے لئے چاندی کے علاوہ کسی بھی دھات  کی انگوٹھی  پہننا یا ایک نگ سے زائد نگ والی انگوٹھی پہننا یا  بغیر نگ کے انگوٹھی یا چھلّا پہننایا ساڑھے چار ماشے کے برابریا اس سے زیادہ وزن کی انگوٹھی (اگرچہ چاندی ہی کی ہو)پہننا   ناجائز و گناہ ہےنیز انگوٹھی کے علاوہ  کسی قسم کا زیور مثلاً بالیاں وغیرہ  پہننا بھی ناجائز و گناہ ہے، اگرچہ  وہ چاندی ہی کا کیوں نہ ہو۔

(2)گناہ پر تعاون کی وجہ سے غیر شرعی انگوٹھیوں کی خرید و فروخت  مکروہِ تحریمی و ناجائز ہے، لیکن اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حرام نہیں ہو گی، کیونکہ یہ  بیع باطل یا فاسد نہیں ہے، بلکہ اصل و وصف کے لحاظ سے درست ہے،لیکن امرِ خارج(معصیت پراعانت ہونے) کی وجہ سے مکروہ( تحریمی) ہےاور بیع مکروہ کو بھی اگرچہ دیانۃً ختم کرنا ضروری ہوتا ہے،لیکن اس میں بائع اور مشتری کو ثمن و مبیع پر ملکِ صحیح حاصل ہو جاتی ہے یعنی بیع مکرو ہ کی آمدنی حلال  ہوتی ہے۔

بیع مکروہ کاحکم بیان کرتے ہوئے علامہ علاء الدین حصکفی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’اعلم ان فسخ بیع المکروہ واجب علی کل واحد منھما ایضا لرفع الاثم‘‘ترجمہ:جان لو کہ رفعِ اثم (گناہ کو بالکلیہ  ختم کرنے ) کے لیے متعاقدین میں سے ہر ایک پر بیع مکروہ کو فسخ کرنابھی واجب ہے۔

 (در مختار، ج7، ص316، مطبوعہ پشاور)

    علامہ سیّد ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’وقدمنا عن الدرر انہ لا یجب فسخہ و ما ذکرہ الشارح عزاہ فی الفتح  اول باب الاقالۃ الی النھایۃ ثم قال : و تبعہ غیرہ و ھو حق لان رفع المعصیۃ واجب بقدر الامکان اھ قلت:ویمکن التوفیق بوجوبہ علیھما دیانۃ بخلاف البیع الفاسد فانھما اذا اصرا علیہ یفسخہ القاضی جبرا علیھما ووجھہ ان البیع ھنا صحیح ویملک قبل القبض ویجب فیہ الثمن لا القیمۃ فلا یلی القاضی فسخہ لحصول الملک الصحیح‘‘ترجمہ:ہم نے پہلے درر کے حوالے سے یہ بات بیان کی ہے کہ بیع مکروہ کو  فسخ کرنا واجب نہیں اور جس قول کو شارح نے ذکر کیا ہے، اسے فتح  کے باب الاقالہ کے شروع میں  نہایہ کی طرف منسوب کیا ہے پھر فرمایا  کہ نہایہ کے علاوہ فقہاء نےبھی ان کی اس مسئلے میں  اتباع کی ہے اور یہی(یعنی عقد کو ختم کرنے کا حکم) حق ہے، کیونکہ جتنا ممکن ہو، معصیت کو ختم کرنا واجب ہوتا ہے۔میں(علامہ شامی علیہ الرحمۃ) کہتا ہوں کہ ان دونوں قولوں میں اس طور پر تطبیق ممکن ہے کہ بیع مکروہ کو فسخ کرنا دیانۃ ًواجب ہو،برخلاف بیع فاسد کے کہ متعاقدین جب اس پر مصر ہوں(یعنی اسے ختم نہ کریں)تو قاضی اسے جبراً ختم کر دے گااور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں (یعنی بیع مکروہ کی صورت میں فی نفسہ)بیع صحیح ہےاور اس میں قبضہ سے پہلے ملکیت حاصل ہوجاتی ہے اور اس میں ثمن(عاقدین باہم رضا مندی سے جو ریٹ طے کرتے ہیں) واجب ہوتا ہے ،نہ کہ قیمت (چیز کے معیار کے اعتبار سےاُس  کا جو ریٹ بنتا ہو)، پس قاضی اسے فسخ کرنے کا مالک نہیں ہوگا،کیونکہ متعاقدین کو ملکِ صحیح حاصل ہو چکی ہے۔

    (رد المحتار ،ج7،ص316،مطبوعہ پشاور)

    اورصدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی  علیہ ا لرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:’’بیع مکروہ بھی شرعاً ممنوع ہے اور اس کا کرنے والا گنہگار ہے،مگر چونکہ وجہِ ممانعت نہ نفسِ عقد میں ہے،نہ شرائطِ صحت میں،اس لئے اس کا مرتبہ فقہاء نے بیع فاسد سے کم رکھا ہے، اس بیع کے فسخ کرنے کا بھی بعض فقہا حکم دیتے ہیں،فرق اتنا ہے کہ بیع فاسد کو اگر عاقدین فسخ نہ کریں تو قاضی جبرا ًفسخ کر دے گا اور بیع مکروہ کو قاضی فسخ نہ کرے گا،بلکہ عاقدین کے ذمہ دیانۃً فسخ کرنا ہے۔بیع فاسد میں قیمت(چیز کے معیار کے اعتبار سےاُس کا جو ریٹ  بنتا ہو) واجب ہوتی ہے،اس  میں ثمن(عاقدین باہم رضا مندی سے جو ریٹ طے کرتے ہیں) واجب ہوتا ہے،بیع فاسد میں بغیر قبضہ ملک نہیں ہوتی ،اس میں مشتری قبلِ  قبضہ مالک ہو جاتا ہے۔‘‘

(بھارِ شریعت،ج2،حصہ 11،ص722تا723، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    تنبیہ:فقہائے کرام کی اصطلاح میں خرید و فروخت کرنے والے افراد کے درمیان  باہم رضامندی سے کسی چیز کا جو بھی ریٹ طے  پائے ، اسے ثمن کہتے ہیں، چاہے چیز کے معیار(مارکیٹ ویلیو) کے اعتبار سے کم ریٹ طے پائےیا زیادہ ، جبکہ کسی  چیز کے معیار (مارکیٹ ویلیو)کے مطابق اُس  کا جو ریٹ بنتا ہو، اُسے قیمت کہتے ہیں۔چنانچہ  علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”و الفرق بین الثمن و القیمۃ ان الثمن ما تراضی علیہ المتعاقدان سواء زاد علی القیمۃ و نقص و القیمۃ ما قوّم بہ الشئ بمنزلۃ المعیار من غیر زیادۃ و لا نقصان“ترجمہ:ثمن اور قیمت میں یہ فرق ہے کہ ثمن سے مراد وہ ریٹ  ہے کہ جس پر متعاقدین (خرید و فروخت کرنے والے) راضی ہو جائیں ، چاہے  وہ ریٹ اُس چیز کی واجبی قیمت سے زیادہ ہو یا کم ہونیز  کسی قسم کی زیادتی اور کمی  کیے بغیر چیز کے معیار کے اعتبار سےاُس کا  جو ریٹ بنتا ہو، اُسے قیمت کہتے ہیں۔

(ردالمحتار، ج7،ص117، مطبوعہ پشاور)

    لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آمدنی حلال ہے، تو  ایسا کام کرنے کی اجازت ہے ، بلکہ فی نفسہ آمدنی حلال بھی ہو، تب بھی جب کام کرنا  ہی گناہ ہو، تو  ایسا کام کرنے کی ہر گز اجازت نہیں ہو گی نیز یہ بات  بھی یاد رہے کہ  گناہ کی نحوست کے سبب روزی سے برکت بھی ختم ہو جاتی ہے۔

    گناہ کی نحوست کے سبب برکت اٹھا لی جاتی ہے۔چنانچہ علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمۃ ماپ تول  کے متعلق گفتگو کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’فالبرکۃ تحصل فیہ بالکیل لامتثال امر الشارع واذا لم یمتثل الامر فیہ بالاکتیال نزعت منہ لشوؤم العصیان‘‘ترجمہ: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے ماپنے سے غلے میں برکت ہو گی اورماپنے میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم کی  پیروی نہ کی،توگناہ کی نحوست کی وجہ سے اُس غلے سے برکت اٹھا لی جائے گی۔

(عمدۃ القاری،ج8،ص413،مطبوعہ ملتان)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم