اورادو وظائف میں مصروف شخص کو سلام کرنا

مجیب:مولانا حسان مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صآحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جمادی الاولیٰ 1442ھ

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ  ہم مسجد میں بیٹھ کر وظائف پڑھ رہے ہوتے ہیں یا ذکر کررہے ہوتے ہیں  تو کوئی آکر سلام کرتا ہے ، کیا ہم پر اس کے سلام کا جواب دینا واجب ہوتا ہے؟ سائل : حافظ ارسلان(محمد علی سوسائٹی کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سلامِ تحیت یعنی وہ سلام جو ملاقات کا سلام کہلاتا ہے اس سلام کا جواب دینا واجب ہے ۔ جیسے کوئی شخص کسی جگہ ملاقات کے لیے بیٹھا ہو  اور آنے والے نے اسے سلام کیا یا کسی کو خط لکھا گیا اور اس میں سلام لکھا ہو تو یہ بھی ملاقات ہی کا سلام کہلاتا ہے ان کا جواب واجب ہوتا ہے۔ ملاقات کے علاوہ  کسی اور موقع کے  سلام کا جواب واجب نہیں ہے ، لہذا اگر وظائف  یا ذکر کے لیے بیٹھے ہیں اور ان میں مشغولیت کی وجہ سے جواب نہ دیا   تو واجب کا ترک نہ ہوگا ، لیکن اگر کوئی اور وجہ نہ ہو تو بہتر ہے جواب دے دیں کہ اس سے مسلمان کی دل جوئی ہوگی۔

    کتب فقہ میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ اگر کوئی شخص تلاوت کرنے ، تسبیح ودرود پڑھنے میں مشغول ہو یا نماز کے انتظار میں ہو ، یا درس وتدریس میں یا علمی گفتگو میں مشغول ہو یا سبق کی تکرار کررہا ہو تو ان کو سلام نہ کریں اگر کسی نے کیا تو ان لوگوں پر جنہیں سلام کیا گیا  سلام کا جواب واجب نہیں ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ حضرات اس لیے نہیں بیٹھے کہ ملاقات کریں بلکہ ان کے بیٹھنے کے مقاصد دوسرے ہیں اور سلام اس کو کرنا سنت ہے جو  ملاقات کے لیے بیٹھا ہو اور اسی سلام کا جواب دینا واجب ہوتا ہے ۔ لہذا مثلا کسی مقام پر کوئی عالم دین بیان کے لیے آتے ہیں اور بیان کے بعد جارہے  ہوتے ہیں  تو  لوگ ان کو سلام کرتے ہیں اس میں حرج نہیں سلام کا ثواب ملے گا لیکن اس کا جواب ان پر واجب نہیں ، کیونکہ یہ ملاقات کے لیے نہیں آئے یا وہاں ملاقات کے لیے کھڑے نہیں رہے ۔ اسی وجہ سے فقہائے  کرام نے یہ لکھا ہے کہ  اگر قاضی کسی جگہ فیصلہ کرنے کے لیے بیٹھا ہے  فریقین نے اسے سلام کیا تو اس پر سلام کا جواب دینا واجب نہیں کیونکہ وہ فیصلہ کرنے کے لیے بیٹھا ہے نہ کہ سلام کا جواب دینے کے لیے ، اسی طرح عالم دین تدریس کررہا ہے تو اس کو سلام کرنے والا کا جواب دینا واجب نہیں کیونکہ  یہ تعلیم وتدریس کے لیے بیٹھا ہے نہ کہ سلام کا جواب دینے کے لیے۔ 

یاد رہے کہ خط میں لکھے ہوئے سلام کا جواب بھی واجب ہے ، یہاں جواب دینے کی دو صورتیں ہیں ، زبان سے اس کا جواب دینا یا لکھ کر جواب بھیجنا۔ لیکن چونکہ سلام کا جواب دینا فوری واجب ہوتا ہے ، اور لکھنے میں چونکہ عمومی طور پر تاخیر ہوجاتی ہے اس لیے جس وقت لکھے ہوئے سلام کو پڑھیں تو زبان سے اسی وقت جواب دے دیں۔ یہی اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ کار تھا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم