منگیتر کے ساتھ گھومناپھرنا، باتیں،ملاقات وغیرہ کرنا کیسا؟

مجیب:مولانا نوید چشتی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6648

تاریخ اجراء:27جمادی الاولی 1442ھ12جنوری2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شادی سے پہلے لڑکے لڑکی کا ایک دوسرے کو دیکھنا، اکٹھے گھومنا پھرنا، ملاقات کرنا اور فون پر باتیں کرنا ،جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جس عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ ہو، پیغام ِنکاح بھیجنےسے  پہلے اس کو کسی حیلے بہانے سے دیکھنا یا کسی معتبر عورت کے ذریعے دِکھوا لینا جائز ہے، اسی طرح لڑکی کا لڑکے کو دیکھنا  بھی جائز ہے۔ اس دیکھنے میں دونوں کی یہی نیت ہوکہ حدیث پر عمل کرناچاہتے ہیں، کیونکہ حدیث شریف   میں آیاہے کہ جس سے نکاح کرناچاہتے ہو،اس کو دیکھ لوکہ یہ بقائے محبت کاذریعہ ہے۔ یہ خیا ل رہے کہ اس دیکھنے میں دونوں میں تنہائی نہ ہو کہ یہ دونوں نکاح سے پہلے ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں اور اجنبی مردو عورت میں تنہائی اور خلوت حرام ہے۔اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ عورت مکمل باپردہ ہو، صرف اس کے چہرے  اور ہاتھوں کو دیکھنا جائز ہے۔اس کے بال، کلائی، کان، گلا وغیرہ اعضائے ستر کھلے نہ ہوں،ان اعضاء کی طرف نظر کرنا حرام ہے اور ان اعضاء میں سے کسی عضو کو چھپائے بغیر عورت کا اس مرد کے سامنے آنا بھی حرام ہے۔

    جب اس عورت کے ساتھ صرف  تنہائی اورخلوت حرام ہے، تو ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلفی سے ملنا، گھومنا پھرنا،چھونا، ملاقاتیں کرنا،بلاضرورت فون پر باتیں کرنا،تو حرام در حرام ، شیطانی کام اور سرا سر گناہ ہے ۔یہ سب مغربی تہذیب وتمدن اور اغیار کی بے حیائی میں سے ہے۔ اسلام میں  اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

        قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:قُلۡ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَ یَحْفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمْ  ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ  اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوۡنَ وَ قُلۡ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ ا اَبْصَارِہِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّترجمہ کنز الایمان:”مسلمان مردوں کو حکم دو :اپنی نگاہیں کچھ نیچی  رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ،یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے۔ بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہےاور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں،مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور  دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔“

 (پارہ 18،سورۃ النور، آیت30،31)

        نکاح سے پہلے مرد کے لیے عورت کو کسی حیلے بہانے سے دیکھنے کی اجازت ہے۔  حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:”إذا خطب أحدکم المرأۃ فإن استطاع أن ینظر إلی ما یدعوہ إلی نکاحھا فلیفعل“  ترجمہ : جب تم میں سے کوئی کسی عورت کونکاح  کا پیغام دینے لگے ،تو اگر اس کو دیکھ سکے ،جو اسے اس عورت کےنکاح کی طرف لے جائے تووہ  ضرورایسا  کر لے۔

                  (سنن ابو داؤد، جلد 1، صفحہ301،مطبوعہ لاھور)

        مفسر قرآن مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:”مخطوبہ وہ عورت ہے، جس کے نکاح کا پیغام دیا گیا ہو یا دینا ہو، مخطوبہ کو دیکھ لینا یا دِکھوا لینا مستحب ہے۔دیکھنے سے مراد چہرہ دیکھنا ہے کہ حسن و قبح چہرے ہی میں ہوتا ہے اور اس سے مراد وہ ہی صورت ہے جو ابھی ذکر کی گئی، یعنی کسی بہانہ سے دیکھ لینا یا کسی معتبر عورت سے دکھوا لینا،نہ کہ باقاعدہ عورت کا انٹرویو کرنا، جیسا کہ آج کل کے بے دینوں نے سمجھا۔‘‘

                                                                                          (مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد5،صفحہ11،12 نعیمی کتب خانہ، گجرات)

        حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:”أن المغیرۃ بن شعبۃ أراد أن یتزوج امرأۃ فقال لہ النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اذھب فانظر إلیھا فإنہ أحری أن یؤدم بینکماففعل فتزوجھا فذکر من موافقتھا“ترجمہ : حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا، تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: آپ جائیں اور اس عورت کو ایک نظر دیکھ لیں کہ بے شک یہ تم دونوں  کے درمیان  دائمی محبت کا ذریعہ ہے ،انہوں نے  ایسا ہی کیا اور پھر اس عورت سے نکاح کیا اور  انہوں نے  ذکر کیا کہ زوجہ اور ان کے درمیان موافقت ہے ۔

                                                   (سنن ابن ماجہ، صفحہ 134، مطبوعہ  کراچی)

        حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:”ألا لا یخلون رجل بإمرأۃ إلا کان ثالثھما الشیطان“ترجمہ : خبردار !کوئی شخص کسی عورت سے خلوت نہیں کرتا، مگر ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔

(سنن الترمذی، جلد1، صفحہ 221، مطبوعہ کراچی)

        الزواجر عن اقتراف الکبائر میں حدیث پاک ہے:’’ ایاکم والدخول علی النساء“یعنی اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔

(الزواجر عن اقتراف الکبائر، جلد2،صفحہ4،مطبوعہ بیروت)

        درمختار میں اشباہ کے حوالے سے ہے :”الخلوۃ بالأجنبیۃ حرام“یعنی اجنبیہ کے ساتھ خلوت حرام ہے۔

(درمختار مع ردالمحتار، جلد 9، صفحہ 607، مطبوعہ پشاور)

        مفتی وقارالدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ’’نکاح سے پہلے لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور غیر محرم ہیں۔“

(وقارالفتاوی ،جلد 3،صفحہ134، مطبوعہ کراچی)

        صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتےہے:”عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ ہو تو اس نیت سے دیکھنا جائز ہے کہ حدیث میں یہ آیا ہے کہ جس سے نکاح کرنا چاہتے ہو، اس کو دیکھ لو کہ یہ بقائے محبت کا ذریعہ ہوگا۔ اسی طرح عورت اس مرد کوجس نے اُس کے پاس پیغام بھیجا ہے، دیکھ سکتی ہے، اگرچہ اندیشہ شہوت ہو، مگر دیکھنے میں دونوں کی یہی نیت ہو کہ حدیث پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔“

(بھارشریعت،جلد 3، حصہ16،صفحہ 447، مکتبۃ المدینہ،  کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم