بھیڑیے کی کھال سے بنی ہوئی جیکٹ وغیرہ پہننا کیسا ؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

فتوی نمبر: Nor-11153

تاریخ اجراء:17ربیع الثانی1442ھ/03دسمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے  دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا بھیڑیے کی کھال سے جیکٹ اور پہننے کے دیگرکپڑے بنانا،جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    بھیڑیے کی کھال کو پاک کرنے کے بعدروز مرہ استعمال ہونے والے کپڑے،مثلاً: جیکٹ وغیرہ بنانااور دیگرچیزوں میں استعمال کرنا ،جائز ہے،اس میں کوئی گناہ نہیں ،کیونکہ جانوروں کی کھال کو  پا ک کرنے کے بعد استعمال کرنا ،جائز ہے ،کھال خواہ حلال جانور کی ہو یا حرام جانور کی ، البتہ خنزیر کی کھال کسی صورت  پا ک نہیں ہوسکتی اور نہ  ہی خنزیر کے کسی جزء سے فائدہ اٹھانا،جائز ہے، کیونکہ خنزیرنجس العین ہے،جو کسی صورت پاک نہیں ہوسکتا۔

    جانوروں کی کھال کو پا ک کرنے کے بنیادی طور پر دو طریقے ہیں:

    پہلاطریقہ یہ ہےکہ جانور کو شرعی طریقہ کار کے مطابق ذبح کیا جائے،ذبح شرعی سے اس کی چربی ،گوشت اورکھال وغیرہ پاک ہو جاتےہیں، پھر اگر جانور حلال ہے، تو اس کاگوشت وغیرہ  کھانا بھی جائز ہے۔اگر حرا م جانور ہے، تو اس کی چربی  اور دیگر اجزاء کو بیرونی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

    دوسرا طریقہ یہ ہےکہ اس کی کھال کو دباغت دی جائے،یعنی اس کی کھال کےساتھ ایسا عمل کیا جائے،جس سے اس کی رطوبت،چکناہٹ اور بدبو ختم ہوجائے۔ دھوپ میں رکھ کر یا نمک لگا کر یا کوئی اور طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس کی رطوبت اور بد بو دورکرنے سے دباغت حاصل ہو جائے گی۔

    ان دو طریقوں میں  سے کوئی سا بھی طریقہ اختیارکرنے سےتمام حلال وحرام جانوروں   کی کھال پاک ہو جاتی ہے، لیکن خنزیر اس حکم  سے مستثنٰی(جُدا) ہے،جیساکہ  پہلے بیان ہو ا کہ وہ نجس العین ہے،لہذااس کی کھال اور دیگر اجزاء دباغت اور ذبح شرعی سے  بھی پاک نہیں ہوں گے ۔ بعض علماء نے لکھاہے  کہ سانپ کی کھال دباغت کو قبول نہیں کرتی اس لیے وہ بھی دباغت سے قابل استعمال نہیں ہوگی۔

    جیکٹ وغیرہ بنانے میں لا محالہ کھال سے چربی ،دیگر رطوبتیں اور گوشت کے اجزاءبالکل الگ کردئیے جاتے ہیں،  اس لیے یہاں  کھال کے پاک ہونےمیں شک کی کوئی گنجائش نہیں  ہوتی۔نیز یہ یاد رہےکہ جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے ،انہیں شرعی طریقہ سے ذبح کر دیاجائے،تو بھی ان کا گوشت کھانا حرام ہی  رہےگا۔

    بعض احادیث میں مردار اور درندوں کی  کھال استعمال کرنے سے منع فرمایاہے،توشارحینِ حدیث نے  اِن احادیث کی کیا تطبیق بیان کی ہے، اس کا ذکر آخر میں کیا گیا ہے۔

    بخاری شریف میں حدیث پا ک ہے:”عن ابن عباس رضي اللہ عنهما، قال: وجد النبي صلى اللہ عليه وسلم شاة ميتة، أعطيتها مولاة لميمونة من الصدقة، فقال النبي صلى اللہ عليه وسلم: هلا انتفعتم بجلدها؟قالوا: إنها ميتة، قال: إنما حرم أكلها“ ترجمہ :حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،فرماتےہیں کہ نبی  پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مردہ بکری کو دیکھا جوحضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی کودی گئی تھی۔نبی کریم  علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:تم نے اس  کی کھا ل سے فائدہ کیوں نہ  اٹھایا؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ مردہ ہے ،تو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اس کا کھانا حرام  ہے(کھال استعما ل کرنا ،جائز ہے )۔

(صحیح البخاری ،کتاب الزکوۃ ،باب الصدقۃ  علی موالی ازواج النبی  صلی اللہ علیہ وسلم ،جلد1،صفحہ 202،مطبوعہ  کراچی)

    امام ابوبکر جصاص رازی علیہ الرحمۃ تفسیر احکام القرآن للجصاص میں فرماتےہیں:”وقد روى عطاء عن ابن عباس وأبو الزبير عن جابر ومطرف عن عمار إباحة الانتفاع بجلود السباع وعن علي بن حسين والحسن وإبراهيم والضحاك وابن سيرين لا بأس بلبس جلود السباع “ ترجمہ: حضرت عطا نے حضرت ابن عباس  سے ،ابو زبیر نے حضرت جابر سے،مطرف نے حضرت عمار رضی اللہ عنہم سے درندوں کی کھال سے فائدہ اٹھانے کے مباح ہونے کو روایت کیا ہے اور حضرت علی بن حسین اور حضرت حسن بصری اور حضرت ابراہیم اور حضرت ضحاک   اور ابن سیرین سے روایت ہے کہ درندوں کی کھال  پہننےمیں کوئی گناہ نہیں( یعنی بعد ازدباغت  ۔)

                                                      (احکام القرآن للجصاص ،جلد 01،صفحہ 151،مطبوعہ بیروت )

    رد المحتار میں ہے:”من اللباس المعتادلبس الفرو ولا بأس به من السباع كلها وغير ذلك من الميتة المدبوغةو المذكاة ودباغها ذكاتها “یعنی عادتاً پہنے جانےو الے لبا س میں سے پوستین (چمڑے کا گرم کوٹ یا جیکٹ ) بھی ہےاورتمام مذبوح  درندوں  کی کھال اور  جس  مردار درندے کی کھال کو دباغت دی گئی ہو، اس کی پوستین پہننے میں کوئی گناہ  نہیں ہےاور کھال کودباغت دینا ہی اس کی پا کی ہے ۔

 (ردالمحتار مع الدرالمختار ،جلد 09،صفحہ506،مطبوعہ  ملتان  )

    مجمع الانہر میں ہے :” ولا بأس بلبس الفراء كلها من جلود السباع والأنعام وغيرها من الميتة المدبوغة والذكية “یعنی  درندے،چوپائے اور دیگرجانورجنہیں ذبح کیا گیا ہو یا ان کی کھال کو دباغت دی ہو ،ان کی کھال  سے بنی ہوئی پوستین  پہننے میں کوئی گناہ نہیں ۔

                                                                     (مجمع الانھر ،جلد 04،صفحہ195،مطبوعہ کوئٹہ  )

    ہدایہ  میں ہے :” وكل إهاب دبغ فقد طهر وجازت الصلاة فيه والوضوء منه إلا جلد الخنزير والآدمي لقوله  عليه الصلاة والسلام (أيما إهاب دبغ فقد طهر) ثم ما يمنع النتن والفساد فهو دباغ وإن كان تشميسا أو تتريبا لأن المقصود يحصل به فلا معنى لاشتراط غيره۔۔۔ثم ما يطهر جلده بالدباغ يطهر بالذكاة لأنها تعمل عمل الدباغ في إزالة الرطوبة النجسة، و كذلك يطهر لحمه هو الصحيح، وإن لم يكن مأكولا “مذکورہ عبارت کا خلاصہ:جس کھال کو دباغت دی جائے وہ  پا ک ہوجاتی ہے،لہذا  اس میں نماز پڑھنا اور اس سے(بنے مشکیزے سے)و ضو کرنا،جائزہے،مگر آدمی اور خنزیر کی کھال کا معاملہ جدا ہے ۔ سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:جس کھال کو دباغت دی جائےوہ پا ک ہوجاتی  ہے۔پھر ہر وہ عمل  جو کھال کی بدبو اور خرابی کو ختم کردے،وہ دباغت کہلاتا ہے ، اگرچہ یہ دھوپ میں رکھناہو ،یا مٹی کے ذریعے ہو ،کیونکہ  ان سے مقصود حاصل ہو جاتاہے، تو ان کےعلاوہ کسی اور چیز کی شرط لگانابے معنی ہے۔پھر جو کھال دباغت سے پاک  ہوجاتی ہے،وہ ذبح شرعی سےبھی پاک ہوجائےگی،کیونکہ ذبح شرعی ناپاک رطوبتوں کو خارج کرنے میں دباغت والا کام کرتاہے،اسی طرح اس کا گوشت بھی پا ک ہوجائے گا ،یہی صحیح ہے ،اگرچہ اسے کھایا نہ جاتاہو ۔

(الھدایہ مع شرح بنایہ ،جلد 01،صفحہ254 تا 266،مطبوعہ  ملتان  )

    فتاویٰ عالمگیری میں ہے :” ان الجلود كلها تطهر بالذكاة أو بالدباغ إلا جلد الإنسان والخنزير وإذا طهرت بالذكاة جاز الانتفاع بها“یعنی تمام جانوروں کی کھالیں   ذبح شرعی اور دباغت سے پا ک ہو جاتی ہیں،سوائے خنزیر اور انسان کی کھال کےاور  جب یہ ذبح شرعی سے پاک ہوجائے،تو اس سے فائدہ اٹھانا بھی جائز ہوگا ۔

                             (فتاویٰ عالمگیری ،جلد 03،صفحہ115،مطبوعہ پشاور )

    مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں فرماتےہیں:”سوئر کےسِوا ہر جانور حلال ہو یا حرام جبکہ ذبح کےقابل ہو اور بسم اللہ کہہ کر ذبح کیاگیا،تو اس کا گوشت اور کھال پا ک ہے کہ نمازی کےپاس اگر وہ گوشت ہےیا اس کی کھال پر نمازپڑھی تو نمازہوجائےگی ،مگر حرام جانور ذبح سے حلال نہ ہوگا ،حرام ہی رہےگا ۔سوئر  کےسوا ہر مردارجانور کی کھال سکھانے سے پاک ہوجاتی ہے،خواہ اس کو کھاری نمک وغیرہ کسی دوا سے پکایا ہویا فقط دھوپ یا ہوا میں سکھالیاہواور اس کی تمام رطوبت فنا  ہو کر بدبو جاتی رہی ہو کہ دونوں صورتوں میں پاک  ہوجائے گی، اس پر نمازدرست ہے ۔‘‘

(بھارشریعت  ،جلد 01،صفحہ 402،مکتبۃا لمدینہ،کراچی )

    ممانعت والی احادیث کا مفہوم

    مشکوٰۃ شریف میں درندوں کی کھال  کے استعمال کے متعلق ممانعت والی حدیث ہے،چنانچہ حضرت مقداد بن معدیکربرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:” نهى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم  عن لبس جلود السباع والركوب عليها“ ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  درندوں  کی کھال  پہننے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایاہے ۔  

           (مشکوۃ المصابیح ، صفحہ53،مطبوعہ کراچی )

    شارحین حدیث نےمذکورہ حدیث پاک او ردیگر ممانعت والی  احادیث کےدوطرح سے  جواب دئیے ہیں:

    1. جن احادیث میں مردار کی کھال   استعمال   کرنے سے منع  کیاگیا ہے، ان سے مراد دباغت سے پہلےاستعمال کرنا ہے۔

    2.بعض محدثین نے لکھا ہے کہ اس ممانعت سے مراد کراہت تنزیہی ہے ،کیونکہ درندے  کی کھال استعمال کرنےسے  مزاج میں سختی اور تکبر پید اہوتاہے،لہذا افضل یہی ہےکہ  درندوں کی کھال سے بنے ہوئے کپڑے استعمال  نہ کیے جائیں۔

    چنانچہ علامہ عینی علیہ الرحمۃ نے عمدۃ  القاری   میں  جانوروں کی کھال کی طہارت اور ان  کےاستعمال کےجائز ہونے کو احادیث کی روشنی میں بیان کرنے کےبعد مذکورہ حدیث پاک  میں بیان کی گئی ممانعت کےبارےمیں فرمایا:” والأولى هنا هو الأخذ بالحديثين جميعا وهو أن يحمل المنع على ما قبل الدباغ والأخبار بالطهارة بعده  بہتر  یہ ہےکہ  دونوں طرح کی حدیث میں تطبیق  کی جائےاور منع کو دباغت سے پہلے استعمال پر اور  طہارت وجوا ز کو دباغت کے بعد استعمال  پر محمول کیا جائے ۔                                                                 

(عمدۃ القاری ،جلد06 ،صفحہ547،مطبوعہ ملتان )

    مرقاۃ المفاتیح میں ہے :” فإن لبس جلود السباع والركوب عليها من دأب الجبابرة وعمل المترفين فلا يليق بأهل الصلاح وزاد ابن الملك وقال إن فيه تكبرا وزينة“یعنی درندوں کی کھال پہننا،اس پر سوار ہو نا متکبرین کا طریقہ اورسرکشوں کا کام ہے ،لہذا یہ نیک لوگوں کے لائق  نہیں ہے اور ابن ملک   نے زائد کیا کہ اس میں تکبر اور زینت ہے۔                   

(مرقاۃ المفاتیح  ،جلد02 ،صفحہ73،مطبوعہ ملتان )

    شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اشعۃ اللمعات میں فرماتےہیں:”یعنی علماء نے اس کی ممانعت کی علت یہ بیان کی ہے کہ یہ جابر اور متکبر لوگوں کی عادت ہے ۔اس صورت  کےمطابق یہ نہی تنزیہی ہے ۔ ‘‘

 (اشعۃ اللمعات ،جلد 01 ،صفحہ 697،مطبوعہ فرید بک سٹال)

    نزہۃالقاری شرح صحیح البخاری میں  ہے:”یہ سب احادیث اس کی دلیل ہیں کہ قبل دباغت مردار کی کھال ناپاک ہے ،اس سے نفع حاصل کرنا، جائز نہیں اور دباغت کےبعد وہ پا ک ہے، اس سے انتفاع جائز ہے ،اخیر  کی حدیث سے معلوم ہوا کہ دباغت کےلیے پکانا  لازم نہیں۔کسی طرح سے اس کی خلقی رطوبت دور کرد ی جائے،دباغت ہوگئی ،مثلاً: دھوپ میں سکھادیا ۔ان احادیث سے ان حضرات کابھی قول باطل ہوگیا جو بعد دباغت مردار کی کھال سے نفع حاصل کرنے کوناجائز کہتے ہیں ۔ہمارے یہاں انسان اور سانپ اور خنزیر کےعلاوہ ہر جانور کی کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے،انسان کی کھال اس وجہ سے کہ انسان مکرم ومحترم  ہے،اگر دباغت سے اس کی کھال کو قابل انتفاع  ہونے کا فتویٰ  دےدیا جائے ،تو انسان کی ناموس خطرےمیں پڑ جائے ۔سانپ کی کھال اتنی سخت ہوتی ہے کہ وہ دباغت کو قبول نہیں کرتی اور خنزیر نجس العین ہے اس کی کھال کےپا ک ہونے کاسوال ہی نہیں ۔‘‘

( نزھۃ القاری  ،جلد02 ،صفحہ975،مطبوعہ فرید بک سٹال )

    مفتی احمدیار خان نعیمی علیہ الرحمۃ نے اسی حدیث پاک کے تحت فرمایا :”( درندے کی کھال سے منع فرمایا )اس  لیے  نہیں کہ وہ نجس ہیں ، بلکہ اس لیے کہ اس سے غروروتکبر پیدا ہو تاہےاور یہ ممانعت تنزیہی ہے ۔درندوں  کی کھال پر سوار ہونا ،بیٹھنا ،ان کی پوستین پہنناوغیر ہ سب مکروہ و تقوی ٰ کے خلا ف ہے ۔‘‘