علاج کے لیے تعویذ جلانا کیسا؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-5948

تاریخ اجراء:08ربیع الثانی1440ھ16دسمبر2018ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے  بارے میں کہ بعض عاملین ایک کاغذ پہ قرآن پاک کی متعدد آیات اور دیگر مقدس نام لکھ کر لپیٹتے ہیں اور پھر کسی روحانی مرض کی شفایابی کے لیے اسے جلا کر دھونی لینے کا کہتے ہیں، تو کیا ایسے کاغذ کو جلایا جا سکتا ہے جس میں قرآن کریم کی آیات اور پاکیزہ نام لکھے ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    قرآن کریم کی ہر آیت کا ادب واحترام مسلمانوں پر لازم ہے۔ کتب فقہ میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ جب قرآن کریم بوسیدہ ہو جائے اور پڑھنے کے قابل نہ رہے، تو اسے کسی محفوظ اور پاک جگہ دفن کر دیا جائے یا مخصوص احتیاطوں کے ساتھ دریا بُرد کر دیا جائے، اسے جلانا ، جائز نہیں، جب ناقابلِ انتفاع ہونے کی صورت میں جلانا ، جائز نہیں، تو متعدد آیات صحیح و سالم ہونے کی صورت میں خواہ تعویذ کی صورت میں ہوں، جلانا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ یونہی اسمائے مقدسہ مثلاً: اللہ عزوجل، انبیائےکرام، صحابہ کرام اور اولیائے عظام کے اسمائے گرامی کو جلانا بھی منع ہے۔ لہذا عاملین کی طرف سے اگر ایسے تعویذ دئیے جائیں، جن میں آیاتِ قرآنیہ یا اسمائے مقدسہ ہوں، انہیں جلانا بلاشبہ ان کے ادب و احترام کے خلاف اور سخت ممنوع ہے۔

    ناقابلِ انتفاع قرآن کریم کی حفاظت کے متعلق رد المحتار میں ہے:’’فی الذخیرہ المصحف اذا صار خلقاً وتعذر القراۃ منہ، لایحرق بالنار، الیہ اشار محمد وبہ ناخذ‘‘ ترجمہ : ذخیرہ میں ہے کہ مصحف جب بوسیدہ ہو جائے اور اس سے قراءت نہ کی جا سکے، تو اسے آگ  میں  نہ جلایا جائے۔ اسی کی طرف امام محمد علیہ الرحمۃ نے اشارہ کیا ہے اور ہم اسے ہی اختیار کرتے ہیں۔‘‘

 (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 9، صفحہ 696، مطبوعہ  پشاور)

    دیگر مقدس اوراق جلانے کے متعلق در مختار میں ہے:’’الکتب التی لا ینتفع بھا یمحی عنھا اسم اللہ وملائکتہ ورسلہ  ویحرق الباقی ولا باس بان تلقی فی ماء جار، کما ھی او تدفن وھو احسن‘‘ترجمہ:وہ کتابیں جو قابل انتفاع نہ رہیں،ان میں سے اللہ عزوجل، فرشتوں اور رسولوں کے نام مٹا کر بقیہ کو جلادیا جائے یا وہ کتابیں جس حالت میں ہوں، اسی طرح انہیں جاری پانی میں بہا دیا جائے یا دفن کر دیا جائے اور دفن کرنا زیادہ اچھا ہے۔‘‘

   (در مختار مع ردالمحتار ، کتاب الحظر والاباحۃ،جلد 9، صفحہ 696، مطبوعہ  کراچی)

    سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’مصحف کریم کا احراق جائز نہیں۔‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 376، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    مزید فرمایا:’’قواعد بغدادی و ابجد اور سب کتب غیر منتفع بہا ما ورائے مصحف کریم کو جلا دینا بعدِ محوِ اسمائے باری عز اسمہ اور اسمائے رسل و ملائکہ صلی اللہ تعالیٰ علیہم وسلم اجمعین کے جائز ہے۔‘‘

          (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 339، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم