مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کو سلام کرنا کیسا ؟

مجیب:مولانا آصف صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ہاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-10316

تاریخ اجراء:19جمادی الاولی 1442ھ/04جنوری2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض مساجدمیں یہ دیکھاگیاہے کہ نمازکے لیے باہرسےآنے والےلوگ  پہلے سے مسجدمیں جمع نمازیوں کوجوجماعت کے انتظارمیں بیٹھے ہوتے ہیں،ان کوبلندآوازسے سلام کرتے ہیں ،اس وقت بعض لوگ قرآن پاک پڑھ رہے ہوتےہیں،بعض دیگرذکرواذکارمیں مشغول ہوتے ہیں ۔شرعی رہنمائی درکارہے کہ اس موقع پرسلام کرناچاہیے یانہیں؟نیزاگرکسی نے سلام کردیاتو کیاوہاں موجودلوگوں پرجواب دیناواجب ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جولوگ مسجد میں انتظارِ نماز میں بیٹھے ہوں،قرآن یادیگرذکرواذکاروغیرہ میں مشغول ہوں،انہیں سلام نہیں کرناچاہیےکہ یہ سلام کا وقت نہیں،نیزکسی نے ان افراد کوسلام  کیاتوان پرجواب دینالازم نہیں،ان کواختیارہے جواب دیں یانہ دیں ۔

    انتظارِنماز میں بیٹھےہوئے لوگوں کوسلام کرنے کے متعلق فتاوی ہندیہ میں ہے:”السلام تحية الزائرين، والذين جلسوا في المسجد للقراءة والتسبيح أو لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين عليهم فليس هذا أوان السلام فلا يسلم عليهم، ولهذا قالوا: لو سلم عليهم الداخل وسعهم أن لا يجيبوه، كذا في القنية“ترجمہ:سلام زائرین کی تحیت ہے اوروہ لوگ جومسجدمیں تلاوتِ قرآن ،تسبیح واذکار میں مشغول ہیں یاانتظارِنمازمیں بیٹھے ہیں  ، وہ اس لیے مسجدمیں نہیں بیٹھے کہ زائرین ان سے ملاقات کریں ، تویہ سلام کاوقت نہیں ہے ، لہذاان کو سلام نہ کیاجائے،اسی سبب فقہائے کرام رحمہم اللہ السلام فرماتے ہیں :اگرکوئی  آنے والاشخص ان(ذکر واذکار میں مشغول یا نماز کا انتظار کرنے والوں ) کوسلام کرے توان کواختیار ہے کہ وہ اس کو جواب  نہ دیں۔

(الفتاوی الھندیۃ،کتاب  الکراھیۃ، الباب السابع في السلام،جلد1،صفحہ325،بیروت)

    فتاوی رضویہ میں ہے:”جو اذان یا تلاوت یا کسی ذکر میں مشغول ہو ،اسے سلام نہ کرے۔“

(فتاوی رضویہ،جلد22،صفحہ378،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    بہارشریعت میں ہے:’’سلام اس لیے ہے کہ ملاقات کرنے کو جو شخص آئے وہ سلام کرے کہ زائر اور ملاقات کرنے والے کی یہ تحیت ہے۔ لہٰذا جو شخص مسجد میں آیا اور حاضرینِ مسجد تلاوت قرآن و تسبیح ودرود میں مشغول ہیں یا انتظارِ نماز میں بیٹھے ہیں تو سلام نہ کرے کہ یہ سلام کا وقت نہیں۔ اسی واسطے فقہاء یہ فرماتے ہیں کہ ان کو اختیار ہے کہ جواب دیں یا نہ دیں۔ کوئی شخص تلاوت میں مشغول ہے یا درس و تدریس یا علمی گفتگو یا سبق کی تکرار میں ہے، تو اس کو سلام نہ کرے۔ اسی طرح اذان و اقامت و خطبہ جمعہ و عیدین کے وقت سلام نہ کرےٖ۔ سب لوگ علمی گفتگو کررہے ہوں یا ایک شخص بول رہا ہے باقی سُن رہے ہوں،دونوں صورتوں میں سلام نہ کرے، مثلاً عالم وعظ کہہ رہا ہے یا دینی مسئلہ پرتقریر کررہا ہے اور حاضرین سن رہے ہیں، آنے والا شخص چپکے سے آکر بیٹھ جائے ، سلام نہ کرے۔“

(بھارشریعت،جلد3،صفحہ462،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم