اللہ کے نام پر مانگنا اور ایسے کو دینا کیسا ؟

مجیب:مولانا شاکر صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-7288

تاریخ اجراء:07شوال المکرم1442 ھ19مئی2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض افرادمستحق ہوتے ہیں اوراللہ کا واسطہ دے کر یا اللہ کے نام پرسوال کرتے ہیں،جیسے :آپ کو اللہ کاواسطہ مجھے یہ دے دو یا اللہ کے نام پرمجھے پیسے دے دو وغیرہ وغیرہ،تو کیاان کا اللہ کا واسطہ دے کر یا اللہ کے نام پر مانگنااور انہیں دینا شرعا جائزہے یانہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اللہ کاواسطہ دے کریااللہ کے نام پرصرف اخروی چیزکاہی سوال کرسکتے ہیں، دنیوی چیزکاسوال نہیں کر سکتےاوراگرکوئی مستحق اللہ کاواسطہ دے کر یا اللہ کے نام پر دنیوی چیز کاسوال کر ہی لے، تودینے والااگرکوئی دینی یادنیوی حرج نہ جانے، تودینامستحب ومؤکد ہے اوراگردینے والاحرج جانے،تودینے سے انکارکر سکتاہے۔

    اللہ کا واسطہ دے کر صرف اخروی چیز یعنی جنت کا سوال کرنے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’لایسئل بوجہ اللہ الاالجنۃ‘‘ترجمہ:اللہ کے واسطے سے سوائے جنت کے کچھ نہ مانگاجائے۔

(سنن ابوداؤد،کتاب الزکوۃ،جلد02،صفحہ127، المکتبۃ العصریۃ،بیروت)

    اوراگرکوئی مستحق خداکاواسطہ دے کرمانگے اوراسے دینے میں کوئی دینی یادنیوی حرج بھی نہ ہو،تودینے کے مستحب و مؤکدہونے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’ ملعون من سأل بوجہ اللہ و ملعون من سئل بوجہ اللہ ثم منع سائلہ مالم یسأل ھجرا ‘‘ ترجمہ: ملعون ہے جو اللہ کا واسطہ دے کر کچھ مانگے اور ملعون ہے جس سے خدا کا واسطہ دے کر مانگا جائے ،پھر اس سائل کو نہ دے ،جبکہ اس نے کوئی بے جا  سوال نہ کیا ہو۔

 (المعجم الکبیر،جلد22،صفحہ377،مطبوعہ القاھرہ)

    جامع ترمذی میں ہے:”ألا أخبركم بشر الناس؟ رجل يسأل باللہ ولا يعطي به“ترجمہ:کیا میں تمہیں بد ترین انسان کے متعلق نہ بتاؤں؟ وہ شخص ہے کہ جس سے اللہ کاواسطہ دے کرسوال کیا جائے اور وہ سائل کونہ دے۔

(جامع ترمذی،جلد03،صفحہ234،مطبوعہ بیروت)

    رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’من سأل باللہ فاعطی کتب لہ سبعون حسنۃ ‘‘ترجمہ:جس سے خداکاواسطہ دے کرکچھ مانگاجائے اوروہ دے دے،تواس کے لیے سترنیکیاں لکھی جائیں گی۔

(کنزالعمال،رقم الحدیث 16076،جلد06،صفحہ363،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

    کسی حرج کی بنا پرنہ دینے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’من سألکم باللہ فاعطوہ وان شئتم فدعو‘‘ترجمہ: جو تم سے خدا کا واسطہ دے کر مانگے،تواسے دو اور اگر نہ دینا چاہو ،تو اس کا بھی اختیار ہے۔

(کنزالعمال ،رقم الحدیث،16294،جلد06،صفحہ407،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

    بحرالرائق میں ہے:”ولو قال رجل لغيره: بحق الله أو بالله افعل كذا لا يجب عليه أن يأتي بذلك شرعا ويستحب أن يأتي بذلك “ترجمہ:اوراگرایک شخص نے دوسرے سے کہاکہ اللہ کے واسطے یا اللہ کے نام پر تم یہ کام کرو،تواس پر وہ کام کرناشرعا واجب نہیں ہے،البتہ مستحب ہے کہ وہ کام کردے۔

 (بحرالرائق،جلد08،صفحہ235،مطبوعہ دارالکتاب الاسلامی)

    تبیین الحقائق میں ہے:”ولو قال رجل لغيره بحق الله أو بالله أن تفعل كذا لا يجب عليه أن يأتي بذلك شرعا، وإن كان الأولى أن يأتي به“ترجمہ:اوراگر ایک شخص نے دوسرےکو اللہ کاواسطے دے کریا اللہ کے نام پرکہاکہ تم  یہ کام کردو،تواس پر شرعاکام کرنا واجب نہیں،لیکن بہتریہ ہے کہ وہ کام کر دے۔

 (تبیین الحقائق،کتاب الکراھیۃ،فصل فی البیع،جلد06،صفحہ31،مطبوعہ قاھرہ)

درمختار میں ہے:”ولو قال لآخر بحق الله أو بالله أن تفعل كذا لا يلزمه ذلك وإن كان الأولى فعله“ترجمہ:اگرکسی نے دوسرے کو اللہ کاواسطہ دے کریااللہ کے نام پر کہا کہ تم اس طرح کرو،تواس پر کرنالازم نہیں،اگرچہ کر دینا بہترہے۔

(درمختار،فصل فی البیع،جلد06،صفحہ397،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

    اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں:’’ علمائے کرام نے بعدِ توفیق و تطبیق احادیث یہ حکم منقح فرمایا کہ اللہ عزوجل کا واسطہ دے کر سوا اخروی دینی شے کے کچھ نہ مانگا جائے اور مانگنے والا اگر خدا کا واسطہ دے کر مانگے اور دینے والے کا اس شے کے دینے میں کوئی حرج دینی یا دنیوی نہ ہو تو مستحب و موکد دیناہے، ورنہ نہ دے ۔اس تفصیل سے سب سوالات کا جواب واضح ہوگیا،جو خدا کا واسطہ دے کر بیٹی مانگے اوراس سے مناکحت کسی دینی یادنیوی مصلحت کے خلاف ہے یا دوسرا اس سے بہتر ہے، تو ہر گز نہ مانا جائے کہ دختر کے لیے صلاح و اصلح کا لحاظ اس بیباک سے اہم واعظم ہے اور روپیہ پیسہ دینے میں اپنی وسعت وحالت اور سائل کے کیفیت وحاجت پر نظردرکار ہے،اگر یہ سائل قوی تندرست گدائی کا پیشہ ور ، جوگیوں کی طرح ہے ،تو ہر گز ایک پیسہ نہ دے کہ اسے سوال حرام ہے اور اسے دینا حرام پر اعانت کرناہے،دینے والاگنہگار ہو گا اور اگر صاحبِ حاجت ہے اورجس سے مانگا اس کا عزیز وقریب بھی حاجتمند ہے اور اس کے پاس اتنانہیں کہ دونوں کی مواسات کرے ،تو اقربا کی تقدیم لازم ہے ،ورنہ بقدرِ طاقت ووسعت ضرور دے اور رُوگردانی نہ کرے۔‘‘

(فتاویٰ رضویہ ،جلد 25، صفحہ  215،مطبوعہ رضا فاؤ نڈیشن ،لاھور)

    بہارشریعت میں ہے:”بعض سائل کہہ دیا کرتے ہیں کہ اللہ(عزوجل)کے لئےدو،خدا کے واسطے دو،حالانکہ اس کی بہت سخت ممانعت آئی ہے،ایک حدیث میں اسے ملعون فرمایا گیا ہےاورایک حدیث میں بدترین خلائق اوراگر کسی نے اس طرح سوال کیا، تو جب تک بُری بات کاسوال نہ ہویاخود سوال بُرا نہ ہو(جیسے مالداریاایسے شخص کابھیک مانگناجو قوی تندرست کمانے پر قادرہو)اوریہ سائل مُتعنّت(بار بار سوال کرکے مشقت میں ڈالنے والایعنی پیشہ وربھکاری)ہو،تو نہ دے۔“

(بھارشریعت،جلد01،صفحہ945،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    مذکورہ بالا تفصیل مستحق شخص کے سوال کرنے کے بارے میں تھیاوراگرکوئی غیرمستحق شخص(جس کے پاس کم از کم ایک دن کاکھانا موجود ہویااتناکمانےپر قادر ہو)اللہ عزوجل کاواسطہ دے کرمانگےیابغیر واسطہ دیئے اپنے لیے مانگے،تو اس کا مانگنااوراسے دینا،دونوں کام ناجائز، حرام وگنا ہ ہیں  ۔

    غیرمستحق شخص کے لیے سوال کرنے کے حرام ہونے کے بارےمیں مبسوط،فتح القدیر اوردرمختار میں ہے:واللفظ للآخر”ولا یحل ان یسأل شیئا من القوت من لہ قوت یومہ بالفعل او بالقوۃکالصحیح المکتسب،ویأثم معطیہ ان علم بحالہ لاعانتہ علی المحرم ،ولو سأل للکسوۃ او لاشتغالہ عن الکسب بالجھاد او طلب العلم جاز لومحتاجا ‘‘ترجمہ:جس کے پاس ایک دن کے کھانے کو ہے یا تندرست ہے کہ کما سکتا ہے ،اُسے کھانے کے لئے سوال حلال نہیں اورجس کو اس کی حالت کا علم ہوتوحرام پر مدد کرنے کی وجہ سےایسے شخص کو دینا بھی جائز نہیں اور اگر کپڑوں کے لیے سوال کرے یا جہاد یا علمِ دین حاصل کرنے میں مشغول ہو ، تو سوال کرنا ، جائز ہے اگر محتاج ہے ۔

       (درمختارشرح تنویر الابصار،جلد3،صفحہ305،306،دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

    اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں:’’بے ضرورتِ شرعی سوال کرنا حرام ہےاور جن لوگوں نے باوجودِ قدرتِ کسب(یعنی کمانے پر قادر ہونے کے باوجود) بلاضرورت سوال کرنا اپناپیشہ کرلیا ،وہ جو کچھ اس سے جمع کرتے ہیں، سب ناپاک وخبیث ہےاور ان کا یہ حال جان کر اس کے سوال پر کچھ دینا داخل ِ ثواب نہیں، بلکہ ناجائز وگناہ اور گناہ میں مدد کرنا ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ303،مطبوعہ رضا فاؤ نڈیشن ،لاھور)

    گناہ پرمدد کرنے کی ممانعت کے بارے میں اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتاہے:﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَان﴾ترجمۂ کنز الایمان: اور گناہ اورزیادتی پر باہم مدد نہ دو۔                                                                                          

(پارہ6،سورۃالمائدہ،آیت 2)

    مذکورہ بالا آیت کے تحت شیخ القرآن مفتی محمدقاسم قادری دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:”یہ انتہائی جامع آیت مبارکہ ہے گناہ اورظلم میں کسی کی بھی مددنہ کرنے کاحکم ہے۔کسی کاحق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا،رشوتیں لے کرفیصلے بدل دینا،جھوٹی گواہیاں  دینا، بلاوجہ کسی مسلمان کوپھنسادینا،ظالم کااس کے ظلم میں ساتھ دینا،حرام وناجائزکاروبارکرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا،بدی کے اڈوں میں نوکری کرنایہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اورناجائزہے۔“

(تفسیرصراط الجنان،جلد02،صفحہ378،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    بہارشریعت میں ہے:’’جس کے پاس آج کھانے کوہے یاتندرست ہے کہ کماسکتاہے، اسے کھانے کے لیے سوال حلال نہیں اوربے مانگے کوئی خود دے دے ،تولیناجائز اورکھانے کواس کے پاس ہے، مگرکپڑانہیں،توکپڑے کے لیے سوال کرسکتاہے،یوہیں اگرجہادیاطلب علم دین میں مشغول ہے تو،اگرچہ صحیح تندرست کمانے پرقادرہواسے سوال کی اجازت ہے،جسے سوال جائز نہیں اس کے سوال پردینابھی ناجائز،دینے والابھی گنہگارہوگا۔‘‘

  (بھارشریعت ،جلد1، صفحہ934، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم