بچے کو امام حسین رضی اللہ عنہ کا منگتا بنانا کیسا اور ایسے کو بھیک دینا کیسا ؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Sar-7243

تاریخ اجراء:07 شعبان المعظم1442ھ/22 مارچ2021

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائےکرام اس مسئلے کےبارےمیں کہ بعض لوگ یوں منت مانتےہیں کہ اگرہمارےہاں بچہ پیداہوا،توہم اسےامام حسین رضی اللہ عنہ کافقیر(منگتا)بنائیں گےاوربچہ پیداہونےپراسےفقیربنادیاجاتاہےاورپھروالدین اس بچےکوساتھ لےکرلوگوں کےگھروں سےبھیک مانگتےہیں،شرعی رہنمائی فرمادیں کہ ایساکرناکیسا؟اوراگریہ کسی گھرپرمانگنےکےلئےجائیں،توگھروالوں کاایسےافرادکودیناکیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کریم، جواد، سخی اور داتا ہیں۔سخاوت اس گھر کا شیوہ ہے اور جُود و بخشش ان کے خون میں شامل ہے، ان کے در کا منگتا ہونا مسلمان کے لئے باعث ِ شرف ہے، لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام لے کر گلی محلے کے لوگوں  کا منگتا، بھکاری بننا اور لوگوں سے بھیک مانگنا حرام ہے  کیونکہ بلاضرورتِ شرعی بھیک مانگنا،ناجائزوحرام ہےاورسوال میں بیان کردہ صورت جس طرح لوگوں میں رائج ہےاس اعتبارسےیہ مَنت باطل وممنوع اورجہالت پرمبنی ہےاوراسےپورانہ کرنالازم ہے۔ اس طرح بھیک مانگناحرام ہے اورایسوں کودینابھی حرام ہےکہ یہ(بھیک مانگنےکے)گناہ پرمددکرناہے۔

حدیث پاک میں ہے:”عن النبی صلى الله عليه وسلم قال لاتحل الصدقةلغنی،ولالذی مرةسوی“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ مالداراورتندرست کےلئےصدقہ حلال نہیں ہے۔

(سنن ابوداؤد،کتاب الزکوۃ،باب من یعطی من الصدقہ،جلد1،صفحہ242،مطبوعہ لاھور)

    اس حدیث پاک کےبارےمیں مبسوط سرخسی میں ہے”يعنی لايحل السؤال للقوی القادرعلى التكسب“ترجمہ:یعنی جوشخص کمانےپرقادرہو،اس کےلئےمانگناجائزنہیں ہے۔

(المبسوط للسرخسی،باب الصلح،کتاب الکسب،جلد30،صفحہ271،مطبوعہ کوئٹہ)

    بھیک مانگنےکےبارےمیں اعلی حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن ارشادفرماتےہیں:”گدائی(بھیک مانگنا)تین قسم(کی)ہے: ایک غنی مالدار، جیسےاکثرجوگی اورسادھوبچے،انہیں سوال کرناحرام اورانہیں دیناحرام۔دوسرےوہ کہ واقع میں فقیرہیں،قدرِنصاب کےمالک نہیں،مگرقوی وتندرست کسب پرقادرہیں اورسوال کسی ایسی ضرورت کےلئےنہیں،جوان کےکسب سےباہرہو،کوئی حرفت یامزدوری نہیں کی جاتی،مفت کاکھاناکھانےکےعادی ہیں اوراس کےلئےبھیک مانگتےپھرتےہیں،انہیں سوال کرناحرام اورجوکچھ انہیں اس سےملے،وہ ان کےحق میں خبیث۔انہیں بھیک دینامنع ہےکہ معصیت پراعانت ہے،لوگ اگرنہ دیں،تومجبورہوں،کچھ محنت مزدوری کریں۔تیسرےوہ عاجز ناتواں کہ نہ مال رکھتےہیں،نہ کسب پرقدرت،یا جتنےکی حاجت ہے،اتناکمانےپرقادرنہیں،انہیں بقدرِحاجت سوال حلال اوراس سےجوکچھ ملے،ان کےلئےطیب اوریہ عمدہ مصارفِ زکوۃسےہیں اورانہیں دیناباعثِ اجرِعظیم،یہی ہیں،وہ جنہیں جھڑکناحرام ہےواللہ تعالی اعلم۔“

(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ،253تا254رضافاؤنڈیشن،لاهور)

    گناہ کےکام کی منت کےبارےمیں حدیث پاک میں ہے : ”قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم لانذرفی معصية“ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ گناہ کےکام میں کوئی منت نہیں ہے۔

(سنن نسائی،کتاب الایمان والنذور،جلد2،صفحہ148،مطبوعہ لاھور)

    اسی بارےمیں بخاری شریف میں ہے:”قال النبی صلى الله عليه وسلم من نذران يطيع الله فليطعه،ومن نذران يعصيه فلايعصه“ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ جواللہ کی اطاعت کی منت مانے،تواطاعت کرے(یعنی منت کوپوراکرے)اوراگر اللہ کی نافرمانی کی منت مانے،تونافرمانی نہ کرے(یعنی وہ ناجائزکام نہ کرے)۔

(صحیح البخاری،کتاب الایمان،والنذور،جلد2،صفحہ991،مطبوعہ کراچی)

    اعلی حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن سےسوال ہواکہ یہ مرادمانگناکہ اگربچہ زندہ رہا،توہم دس برس تک اسےامام حسین رضی اللہ عنہ کافقیربنائیں گے،ایساکرناکیسا؟توآپ علیہ الرحمۃ نےجواباًارشادفرمایا:”فقیربن کربلاضرورت ومجبوری بھیک مانگناحرام،کمانطقت بہ احادیث مستفیضۃ(جیساکہ بہت سی مشہور ومعروف حدیثیں اس معنی پرناطق ہیں)اورایسوں کودینابھی حرام،لانہ اعانۃعلی المعصیۃ کمافی الدرالمختار(کیونکہ یہ گناہ کےکام پردوسرےکی مددکرناہے،جیساکہ درمختارمیں ہے)اوروہ منت ماننی کہ دس برس تک ایساکریں گے، سب مہمل وممنوع ہے۔قال صلی اللہ علیہ وسلم لانذرفی معصیۃ“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا:گناہ کےکام میں کوئی منت نہیں ہے۔“

 (فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ494،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

    اسی بارےمیں بہارشریعت میں ہے”محرم میں بچوں کوفقیربنانے۔۔کی منت سخت جہالت ہے،ایسی منت ماننی نہ چاہیےاورمانی ہو،توپوری نہ کرے۔“

 (بهارشریعت،جلد2،صفحہ318،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم