Teen Mah Ka Najaiz Hamal Zaya Karwane Ka Hukum ?

 تین ماہ کا ناجائز حمل ضائع کروانے کا حکم؟

مجیب: مولاناجمیل صاحب زید مجدہ

مصدق:   مفتی قاسم  صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Fmd:0095

تاریخ اجراء:12محرم الحرام  1438 ھ/14اکتوبر  2016 ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ ایک لڑکی جس کی منگنی اس کی رضامندی کے ساتھ ہی کسی جگہ کی گئی تھی لیکن چند ماہ پہلے وہ اپنے کزن کے ساتھ بدکاری میں مبتلا ہوئی اور اس کو اس وقت تین ماہ کا حمل ہے اور اس کی شادی میں چار ماہ باقی ہیں یہ بات منگیتر یا اس کے گھر والوں کو معلوم نہیں ہے اور اب لڑکی اور اس کے گھر والوں کی عزت کا معاملہ بہت نازک مراحل میں ہے  تو کیا ایسی صورت میں اس  ناجائز حمل کو باقی رکھنا کیا اب ضروری ہے یا اس کو ضائع بھی  کروایا جاسکتا ہے ؟      

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    حمل میں موجود جنین یعنی بچے میں چار ماہ پورے ہونے پر روح ڈال دی جاتی ہے اور اتنی مدت کے حمل کو ضائع کروانے کی اجازت نہیں البتہ اگر مدت حمل چار ماہ نہ ہوئی ہو تو بچے میں جان نہیں ڈالی گئی ہوتی تو بلا عذر شرعی اس کا ساقط کرنا مکروہ وممنوع ہے اور کوئی عذر شرعی ہو تو اسقاط حمل کی اجازت ہے اور پوچھی گئی صورت میں جو حالات  بیان کئے گئے ہیں ان حالات میں اسقاط حمل کا جائز عذر موجود ہے اس لئے حمل ضائع کرناجائز ہےکہ ایک برائی کو چھپانا ہے اور بدکاری جیسی برائی کی پردہ پوشی  ایک امرمستحسن یعنی اچھی چیز ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم