حجامہ کی حقیقت

مجیب: مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جنوری 2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں عُلَمائے دین و مفتیانِ شرع متین اِس بارے میں کہ حجامہ کروانا سنّت ہے یا نہیں؟ آجکل بہت سے حجامہ سینٹر کھلے ہوئے ہیں، ایک تو اِسے سنّت کہتے ہیں اور دوسرا کئی بیماریوں سے شِفا یابی کا دعوی کرتے ہیں۔ اِس کی اِسلام میں کیا حقیقت ہے؟ رہنمائی فرمادیجئے۔

سائل:محمد حیدر عطاری (راولپنڈی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     ’’حجامہ‘‘ عَرَبی کا لفظ ہے، اِس کا معنی ہے پچھنے لگانا۔ حجامہ کروانا حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ثابِت ہے، اَحادیثِ طیّبہ میں حجامہ کی ترغیب بھی دی گئی اور اِسے شِفا یابی کا سبب بھی قرار دیا گیا۔

     حجامہ اَحادیثِ طیّبہ سے ضرور ثابت، بلکہ بعض میں جسم کے کچھ مقامات کی نشاندہی بھی فرمائی گئی کہ اِن میں حجامہ کروانا بہت مفید ہے، مگر اِن پر اپنی مرضی سے عمل نہیں کرنا چاہئے، بے شک اَحادیث میں تجویز فرمائے گئے علاج برحق ہیں، لیکن اِن کا حکم خُصوصی طور اَہلِ عَرَب کی کیفیات و اَمراض کو مدِّنظر رکھتے ہوئے فرمایا گیا، جیسا کہ کلونجی کے متعلق وارِد ہوا کہ اِس میں موت کے سوا ہر بیماری کی شفا ہے، اِس کے تحت مُحدِّثینِ کِرام نے یہی فریا: یہاں عَرَب کی عام بیماریاں مراد ہیں، جبکہ ہمارے مزاج و امراض اَہلِ عرب سے قدرے مختلف ہیں، لہٰذا بغیر طبیبِ حاذِق کے مشورے کے پچھنے نہ لگوائے جائیں۔

     عَلاوہ ازیں خیال رہے کہ حجامہ بھی دیگر علاجوں کی طرح باقاعِدہ ایک علاج ہے، اِس میں جسم سے غیر مقصودی خون نکالا جاتا ہے، اور اِس بات  کو  اِس فن کے لوگ ہی پہچانتے ہیں، لہٰذا حجامہ کے لئے بھی دیگر علاجوں کی طرح حجامہ کرنے والے کا حقیقی ماہر ہونا ضروری ہے، تا کہ حقیقی فوائد حاصل ہو سکیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم