ادھار میں چیز بیچ کر کم قیمت میں نقد خریدنا کیسا؟

مجیب:مولانا شفیق صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Aqs-1607

تاریخ اجراء:13شوال المکرم1440ھ/17جون2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مارکیٹ میں کچھ لوگ ایسا بھی کرتے ہیں کہ جب کسی کوقرض لینا ہوتا ہے، تو وہ کسی دکاندار سے کہتا ہے کہ آپ کی دکان میں موجود یہ بائیک میں ادھار میں 60000کی خریدتا ہوں اور رقم آہستہ آہستہ چھ مہینے میں آپ کو دوں گا اور پھر بائیک پر قبضہ بھی کرلیتا ہے ،پھر دکاندار وہی بائیک اس آدمی سے نقد میں 45000کی خرید لیتا ہے ،تو کیا یہ عمل جائز ہے ؟دکاندار اسے بغیر پرافٹ کے قرضہ نہیں دینا چاہتا اور اس شخص کو 45000کی ضرورت ہوتی ہے ، تو یوں اسے اپنی مطلوبہ رقم مل جاتی ہے  اور دکاندار کو نفع بھی مل جاتا ہے ، مگر یہ طریقہ کار شرعی طور پر درست ہے یا نہیں ؟ اس کی رہنمائی فرمادیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں یہ طریقہ کار ناجائز و گناہ اور اس طرح نفع کمانا بھی ناجائز وحرام ہے ۔

    اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ بائع جب کوئی چیزبیچ دے ، تو اس کی قیمت پر قبضہ کرنے سے پہلے پہلے وہی چیز اسی شخص یا اس کے وکیل سے کم قیمت میں نہیں خرید سکتا ، کیونکہ ابھی تک اس نے اس چیز کی اصل قیمت ادا ہی نہیں کی اور اصل قیمت  کی ادائیگی سے پہلے ہی  کم میں خریدنے سے دکاندار کو 15000کا نفع ملے گا ، جو بلاعوض حاصل ہورہا ہے اور یہ سود کی ہی ایک صورت ہے ،لہٰذا اس طرح خریدنا اور نفع کمانا ،ناجائز وحرام ہے۔

    درمختار میں ہے:”و فسد شراء ما باع بنفسہ او بوکیلہ من الذی اشتراہ و لو حکماً کوارثہ بالاقل من قدر الثمن الاول قبل نقد کل الثمن الاول صورتہ : باع شیئاً بعشرۃ و لم یقبض الثمن ثم شراہ بخمسۃ لم یجز و ان رخص السعر للربا“ ترجمہ: اور جو چیز بندے نے خود بیچی یا اس کے وکیل نے بیچی ہو ، تو ثمنِ اول مکمل ادا کرنے سے پہلے ان میں کمی کر کے اُسی خریدار سے خریدنا بیع فاسد ہے اگرچہ وہ خریدار حکمی طور پر ہو ، جیسا کہ خریدار کے وارث سے خریدنا اس کی صورت یہ ہے کہ کسی شخص نے دس روپے کی کوئی چیز بیچی اور ثمن پر ابھی قبضہ نہیں کیا، پھر اُسی شخص سے پانچ روپے کی خرید لی ، تو ایسا کرنا ، سود کی وجہ سے جائز نہیں ہے ۔اگرچہ مارکیٹ میں حقیقتا ہی اس کی قیمت کم ہوگئی ہو ۔

(درمختار مع ردالمحتار،ج7،ص267،مطبوعہ کوئٹہ )

     ردالمحتار میں”و فسد شراء ما باع الخ“ کے تحت ہے:” ای: سواء کان الثمن الاول حالاً او مؤجلاً ھدایۃ “ یعنی برابر ہے کہ ثمن اول نقد ہو یا ادھار۔

(ردالمحتار،ج7،ص267،مطبوعہ کوئٹہ )

    ردالمحتار میں مزید ہے:” قولہ(للربا)  ای: لان الثمن لم یدخل فی ضمان البائع قبل قبضہ ، فاذا عاد الیہ عین مالہ بالصفۃ التی خرج عن ملکہ و صار بعض الثمن قصاصاً  ببعض بقی لہ علیہ فضل بلا عوض ، فکان ذلک ربح ما لم یضمن و ھو حرام بالنص زیلعی“ ترجمہ: شارح کے قول(سود کی وجہ سے) یعنی: اس لئے کہ بائع کے قبضے سے پہلے ثمن اس کی ضمان میں نہیں آیا ، تو جب اس کا عینِ مال اسی صفت کے ساتھ ، جس کے ساتھ اس کی ملک سے نکلا تھا ، اُس کے پاس لوٹ آیا اور بعض ثمن بعض کا بدلہ ہو گئے، تو مشتری پر اس کے لیے بلا عوض زیادتی باقی رہ جائے گی ،تو یہ زیادتی اُس چیز کا نفع ہے ، جو اِس شخص کی ضمان میں داخل ہی نہیں ہے اور یہ نص کی وجہ سے حرام ہے۔

( ردالمحتار،ج7،ص267،مطبوعہ کوئٹہ )

    فتاوی عالمگیری میں ہے:”و لم یجز شراؤہ وشراء من  لا تصح شھادتہ لہ ما باع بنفسہ او بیع لہ بان باع وکیلہ باقل مما باع قبل نقد الثمن لنفسہ او لغیرہ من مشتریہ او من وارثہ “ ترجمہ : اور جو چیز بندے نے خود بیچی یا اس کے وکیل نے بیچی ہو ، اس کے ثمن ادا کرنے سے پہلے ، جتنے ثمن میں بیچی تھی ، اس سے کم میں اِس کا خود خریدنا یا جس شخص کی گواہی اِس کے حق میں صحیح نہیں ہے ، اس کا خریدنا ، جائز نہیں ہے ۔ (خریداری) چاہے اس چیزکے خریدار سےہو یا خریدار کے وارث سے ۔

( الفتاویٰ الھندیہ ، کتاب البیوع ، الباب التاسع ، الفصل العاشر ، ج 3 ، ص 141 ، مطبوعہ کراچی )

    صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی  اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:” جس چیز کو بیع کر دیا ہے اور ابھی ثمن وصول نہیں ہوا ہے ، اس کو مشتری سے کم دام میں خریدنا ، جائز نہیں اگرچہ اس وقت اس کا نرخ کم ہو گیا ہو۔ یوہیں اگر مشتری مر گیا ، اس کے وارث سے خریدی جب بھی جائز نہیں۔“

(بہارشریعت،ج2،حصہ11،ص708،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم