دوسرے ملک میں غیرقانونی طور پر رہنا اور کاروبار کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جمادی الاخریٰ1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی دوسرے ملک میں غیر قانونی طور پر یعنی چُھپ کر جانا کیسا،نیز کوئی شخص غیرقانونی طریقے سے جاکر وہاں جو کاروبار کر رہا ہے اس  کی کمائی جائز ہے یا نہیں؟

سائل:محمد نفیس (سیالکوٹ)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    غیر قانونی طور پر دوسرے ملک جانا شرعاً ناجائز و گناہ ہے کیونکہ یہ  اپنے آپ کو ذلت و رسوائی پر پیش کرنا اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا ہےکہ پکڑے جانے کی صورت میں شدید ذلت و رسوائی اٹھانی پڑتی ہے بلکہ بعض اوقات ایسے لوگوں پر دوسرے ملک کی فوج فائرنگ بھی کردیتی  ہےجس سے مرنے والوں کی اطلاعات اخبارات وغیرہ میں آتی رہتی ہیں،اور شریعتِ مطہرہ نے اس کام سے منع فرمایا ہے جو ہلاکت اور ذلت و رسوائی کا باعث ہو۔

    جہاں تک کمائی کا تعلق ہے تو اگر وہ کاروبار  فی نفسہٖ جائز ہے تو اس کی کمائی بھی جائز  اور اگر کاروبارفی نفسہٖ حرام ہے تو اس کی کمائی بھی حرام ہے۔البتہ وہ کمائی  اگرچہ جائز بھی ہو مگر اس میں خیر و برکت کی امید کیسے کی جاسکتی ہے جس کے حصول میں اللہ و رسول عَزَّ  وَجَلَّ و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی کی گئی ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم