App Ke Zariye Face Bigarna Kaisa?

ایپ (app) کے ذریعے چہرہ بگاڑنا

مجیب:محمد عرفان مدنی عطاری

مصدق:مفتی ابوالحسن محمدہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lar-10980

تاریخ اجراء:21رجب المرجب1443ھ/23فروری2220ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین  و مفتیان  شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل کچھ ایپس(apps) ایسی آئی ہیں ،ان میں انسانی تصویر میں تبدیلی کی جاتی ہے ،اس کے حوالے سے درج ذیل صورتوں کاجواب مطلوب ہے :

     (1)بسااوقات تصویر کے اعضا میں مختلف اندازسے تبدیلی کردی جاتی ہے،اس کاشرعی حکم کیاہے ؟

     (2)اوربسااوقات نوجوان کی تصویرکوبڑھاپے کی صورت دے دی جاتی ہے ،اس کاشرعی حکم کیاہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     (1)ایپ میں انسانی تصویر کے اعضامیں کی جانے والی تبدیلی کی مختلف صورتیں ہیں :

     (الف)کسی  مسلمان کی تصویرکے ساتھ کوئی ایسامعاملہ کرناجس سے اس مسلمان کی تذلیل وتوہین ،دل آزاری وغیرہ کی ناجائزوممنوع صورتیں بنتی ہوں یااس سے متعلق  مسلمانوں کی دل آزاری  وغیرہ کی صورتیں بنتی ہوں، توایساکرنا مسلمان کی دل آزاری وغیرہ کی وجہ سے ناجائزہوگا۔

     نوٹ:اس میں ایک بات بہت اہم ہے کہ اگر کسی سیدصاحب یا صحیح العقیدہ عالم دین  کی توہین وتحقیرکرنے کے لیے ان کی  تصویر میں بگاڑلایاگیا،تواس کاحکم انتہائی سخت ہوگا،جس کی تفصیل درج ذیل ہے :

     (۱)اگرعالم کی بوجہ علم توہین کرے یاسیدکی بوجہ سیادت توہین کرے ، تویہ توواضح کفرہے اورکرنے والاکافرہے ۔

     (۲)اوراگربوجہ علم  یاسیادت تعظیم فرض جانے، لیکن اپنے کسی دنیاوی معاملے کی وجہ سے توہین وتحقیرکرے ،تویہ سخت حرام ہے اورکرنے والافاسق وفاجرہے ۔

     (۳)اوراگربلاوجہ عالم سے بغض رکھے ،تو علمائےکرام نے فرمایا:’’اس کے کفر کااندیشہ ہے ۔‘‘

     فتاوی رضویہ میں ہے :(1)اگر عا لم کو اِس لیے بُرا کہتا ہے کہ وہ ’’عالم ‘‘ہے ،جب تو صَریح  کافِر ہے اور اگر بوجہِ عِلم اُس کی تعظیم فرض جانتا ہے ،مگر اپنی کسی دُنیوی خُصُومت (یعنی دشمنی)کے باعِث بُرا کہتا ہے، گالی دیتا ،تحقیرکرتا ہے، تو سخت فاسِق فاجِر ہے اوراگر بے سبب(یعنی بِلاوجہ )رنج (بُغض )رکھتا ہے، تو   مَرِیْضُ الْقَلْبِ وَ خَبِیْثُ الْباطِن  (یعنی دل کا مریض اور ناپاک باطن والا ہے)اور اُس کے کُفْرکا اندیشہ ہے ۔ ’’خُلاصہ ‘‘میں ہے :’’مَنْ اَبْغَضَ عَالِماً مِّنْ غَیْرِ سَبَبٍ ظَاھِرٍ خِیْفَ عَلَیْہِ الْکُفْر‘‘( یعنی جو بِلا کسی ظاہِری وجہ کے عالم ِدین سے بُغض رکھے اُس پر کُفرکا خوف ہے ۔) (فتاوی رضویہ،ج21،ص129،رضافاونڈیشن،لاھور)

     مزیدفتاوی رضویہ میں ہے:’’ساداتِ کرام کی تعظیم فرض ہے اور اُن کی توہین حرام ، بلکہ علمائے کرام نے ارشاد فرمایا:’’ جو کسی عالم کو مَولوِیا (مَو ل۔وِیا)یا کسی مِیر(یعنی سیِّد)کو مِیروا بروجہ تحقیر(یعنی حَقارت سے)کہے ، کافر ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج22،ص420،رضافاونڈیشن،لاھور)

     (ب)اسی طرح اگرکسی کی تصویرکوچینج کرکےدھوکا دینے والی کوئی صورت ہو،تویہ صورت بھی ناجائزوممنوع ہوگی کہ دھوکا  کسی کوبھی دینا جائز نہیں ،اگرچہ کافرومرتدکودیاجائے ۔فتاوی رضویہ میں ہے:’’ غدر و بدعہدی مطلقًا سب سے حرام ہے، مسلم ہو یا کافر، ذمی ہو یا حربی ، مستامن ہو یا غیر مستامن ، اصلی ہو یامرتد۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج14،ص139،رضافاونڈیشن،لاھور)

     (ج)اوراگراوپرذکرکردہ صورتوں میں سے کوئی نہ ہوتب بھی اس سے ممانعت ہی کی جائے گی، کیونکہ یہ اگرچہ حقیقتاتوتغییرنہیں ہے  کہ اصل صورت میں تغییرنہیں کی جارہی، بلکہ اس کےعکس میں کی جارہی ہے، لیکن بولنے والے اس پرتغییرکالفظ ہی بولتے ہیں کہ فلاں نے فلاں کی صورت بگاڑ دی وغیرہ  اورجس طرح برے کام سے بچناچاہیے ، برے نام سے بھی بچناچاہیے ۔

     فتاوی رضویہ میں ہے:’’اورحرام جانور کی تصویر میں ایک شنیع وبدنسبت ہے جو کھانے والے کی طرف ہوگی کہ اہل عرف تصویر کواصل ہی کے نام سے یادکرتے ہیں، تو مثلاً: تصویر کاکتا کسی نے کھایا تو اسے بھی کہاجائے گا کہ فلاں شخص نے کتاکھایا، آدمی کو جیسے بُرے کام سے بچنا ضرورہے یوہیں برے نام سے بھی بچناچاہئے۔ غیرجاندار کی تصویربنانی اگرچہ جائزہے ،مگردینی معظم چیزمثل مسجدجامع وغیرہ کی تصویروں میں انہیں توڑنا اور کھانا خلاف ادب ہوگا اور وہی بری نسبت بھی لازم آئے گی کہ فلاں شخص نے مسجد توڑی ،مسجد کوکھالیا۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج24،ص560،رضافاونڈیشن،لاھور)

     نیزاس طرح کرنے والے کامقصدبھی  عموماصورت میں تغییرہی ہوتاہے اوربسااوقات کوئی ممنوع کام حقیقتانہ کیاجائے، لیکن قصدکی وجہ سے ممانعت کاحکم آجاتاہے ۔فتاوی رضویہ میں ہے:’’ ایسا قصد معصیت بھی معصیت ہے ،اگرچہ فعل واقع میں  معصیت نہ ہو، جیسے شربت براہ غلط شراب سمجھ کر پینا کہ وہ حقیقۃً حلال سہی ، پر یہ تو اپنے نزدیک مرتکب گناہ ہوا۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج17،ص309،رضافاونڈیشن،لاھور)

      (2)اورجوان کی تصویربڑھاپے والی بنانے میں اگرکسی کی دل آزاری یادھوکے والی صورت ہے ،تویہ ناجائزوگناہ ہے، جیسے اوپرگزرااوراگر  اس طرح کی صورت نہیں، تواب اس کے حکم کادارومدارنیت پرہوگا ، اگرکوئی خلاف شرع نیت ہوتومنع ہے اوراگراچھی نیت ہو ،مثلاکوئی جوان اپنی تصویرکوبڑھاپے کی حالت میں ڈھال کردیکھے کہ بڑھاپے میں حسن وطاقت اس حالت میں ہوگی، لہذاگناہوں سے بازآجاؤں وغیرہ   توایسی صورت میں نیت کے مطابق حکم لگے گاکہ اچھی نیت سے عمل اچھاہوجائے گا۔

     اوراگرنہ کوئی اچھی نیت ہے  اورنہ کوئی بری  نیت ،تواب یہ لایعنی اورفضول کام ہے اورلایعنی اورفضول کاموں سے بھی بچنے کی ہی ترغیب دلائی گئی ہے ۔

     سنن ترمذی میں ہے:’’ قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: «من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه»‘‘ترجمہ:اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:آدمی کے اسلام کی خوبی میں سے ہے کہ لایعنی کام کوترک کردے۔(سنن ترمذی،ابواب الزھد،ج04،ص558،مصطفی البابی  الحلبی،مصر)

     ردالمحتارمیں ہے :’’ لأن الأعمال بالنيات فكما يكون المباح طاعة بالنية تصير الطاعة معصية بالنية ‘‘ترجمہ:اس لیے کہ اعمال کادارومدارنیتوں پرہے، پس جیسے مباح نیت کی وجہ سے نیکی بن جاتاہے، اسی طرح نیکی،نیت کی وجہ سے گناہ بن جاتی ہے ۔(ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الحظروالاباحۃ،فصل فی البیع،ج06،ص402،دارالفکر،بیروت)

     فتاوی رضویہ میں ہے:’’فاقول وباللہ التوفیق ، اولا :  لعب  ولہو وہزل ولغو وباطل وعبث سب کا محصل متقارب ہے کہ بے ثمرہ نامفید ہونے کے گرد دورہ کرتا ہے۔۔۔۔خامسا: بلا شبہ فاعل سے دفع عبث کے لیے صرف فعل فی نفسہ مفید ہونا کافی نہیں، بلکہ ضرور ہے کہ یہ بھی اُس سے فائدہ معتدبہا بمعنی مذکور کا قصد کرے ،ورنہ اس نے اگر کسی قصد فضول وبے معنے سے کیا، تو اس پر الزام عبث ضرور لازم۔۔۔ یہ نہایت کلام ہے تحقیق معنی عبث میں، اب تنقیح حکم کی طرف چلئے وباللہ التوفیق ۔اقول بیان سابق سے واضح ہوکہ عبث کا مناط فعل میں فائدہ معتدبہا مقصود نہ ہونے پر ہے اور وہ اپنے عموم سے قصد مضر وارادہ شرکو بھی شامل تو بظاہر مثل اسراف اُس کی بھی دو۲ صورتیں : ایک فعل بقصد شنیع دوسری یہ کہ نہ کوئی بُری نیت ہو نہ اچھی۔ ۔۔۔۔ خلاصہ  ان سب نفیس کلاموں کا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنی امت کو لایعنی باتیں چھوڑنے کی طرف ارشاد فرماتے ہیں ،جتنی بات آدمی کے دین میں نافع اور ثواب الٰہی کی باعث ہویا دنیا میں ضرورت کے لائق ہو جیسے بھُوک پیاس کا ازالہ ، بدن ڈھانکنا ، پارسائی حاصل کرنا اُسی قدر امر مہم ہے اور اس سے زائد جو کچھ ہو جیسے دنیا کی لذتیں نعمتیں منصب ریاستیں غرض جملہ افعال واقوال واحوال جن کے بغیر زندگانی ممکن ہو اور ان کے ترک میں نہ ثواب کا فوت نہ اب یا آئندہ کسی ضرر کا خوف وہ سب لایعنی وقابلِ ترک۔۔ ظاہر ہوا کہ لایعنی جملہ مباحات کو شامل ہے، نہ کہ مطلقا مکروہ ہو۔ملخصا‘‘ (فتاوی رضویہ،ج01،حصہ ب،ص997تا 1029،رضافاونڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم