School Ki Falto Copy Kitabon Arabi Ke Kaghazaat Ko Bech Diya Jaye Ya Jala Diya Jaye?

اسکول کی فالتو کاپی کتابوں اور عربی کے کاغذات کو بیچ دیا جائے یا جلا دیا جائے ؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:  Pin-6205

تاریخ اجراء:25شوال المکرم1440ھ29جون2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ بچوں کے اسکول کی جو کتابیں کاپیاں فالتو ہو جائیں، ان کو بیچنا درست ہے یا پھر جلا دیا جائے؟ یونہی عربی کاغذات کا کیا حکم ہے؟

سائل:سعید عطاری (علی پور فراش، راولپنڈی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    عربی کاغذات اور اسکول کی جو کاپیاں کتابیں قابل انتفاع نہ رہی ہوں، ان میں سے آیات، احادیث، اللہ عزوجل، فرشتوں، اور انبیاء کرام کے اسمائے گرامی اور مسائل فقہ الگ کر کے بقیہ کو فروخت کیا جا سکتا ہے، ورنہ ان کاپیوں کتابوں کو کسی تھیلے وغیرہ میں بند کر کے گہرے دریا یا بیچ سمندر میں کوئی وزنی پتھر باندھ کر اس طرح ڈال دیا جائے کہ وہ پانی کی تہہ میں چلے جائیں، پھر باہر ایسی جگہ نہ آسکیں جہاں ان کی بے ادبی کا احتمال ہو اور سب سے بہتر طریقہ انہیں پاک کپڑے میں لپیٹ کر زمین میں دفن کر دینا ہے۔ دفن کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ یا تو ان کے لیے لحد (یعنی بغلی قبر) بنائی جائے یا صندوق نما قبر کھودیں تو چھت بنا کر مٹی ڈالی جائے،جیسے میت کےلیے قبر بنائی جاتی ہے  تا کہ ان پر ڈائریکٹ مٹی نہ  پہنچے۔

    در مختار میں ہے:’’الکتب التی لا ینتفع بھا یمحی عنھا اسم اللہ وملائکتہ ورسلہ  ویحرق الباقی، ولا باس بان تلقی فی ماء جار، کما ھی او تدفن وھو احسن‘‘ ترجمہ:وہ کتابیں جو قابل انتفاع نہ رہیں ہوں، ان میں سے اللہ عزوجل، فرشتوں اور رسولوں کے نام مٹا کر بقیہ کو جلادیا جائے، یا وہ کتابیں جس حالت میں ہوں، اسی طرح انہیں جاری پانی میں بہا دیا جائے، یا دفن کر دیا جائے، اور دفن کرنا زیادہ اچھا ہے ۔ ‘‘

(در مختار، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی البیع، جلد 9، صفحہ 696،  مطبوعہ کراچی)

    وقار الفتاوی میں ہے:’’قرآن پاک کے بوسیدہ اور پرانے اوراق اور وہ اخبارات جن پر قرآنی آیات و احادیث وغیرہ لکھی ہوئی ہوتی ہیں، ان کو جمع کرنا اور اس کے بعد ایک مقام پر دفن کردینا یا کھلے پانی جیسے سمندر یا دریا وغیرہ میں پتھر باندھ کر ڈال دینا سب سے زیادہ مناسب ہے ۔ ‘‘

(وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 100، مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی)

    سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ سے اخبار کی ردی فروخت کرنے کے متعلق سوال ہوا، تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:” جبکہ ان میں آیت یا حدیث یا اسمائے معظمہ یا مسائل فقہ ہوں، تو جائز نہیں، ورنہ حرج نہیں، ان اوراق کو دیکھ کر اشیائے مذکورہ ان میں سے علیحدہ کرلیں، پھر بیچ سکتے ہیں ۔ ‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 400، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم