Aurat Ka Chehre (Face) Ke Balon Ko Saaf Karwana Kaisa Hai ?

عورت کا چہرے کے بالوں کو صاف کروانا

مجیب: ابومحمد محمد سرفراز اخترعطاری

مصدق: مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی  نمبر:87

تاریخ  اجراء: 02 رمضان المبارک 1437 ھ/08جون  2016 ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورت کے چہرے پر اگر بال آ گئے ہوں ، تو کیا وہ اپنے چہرے کی تھریڈنگ یعنی چہرے کے بال صاف کرواسکتی ہے یانہیں؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   عورت کے چہرے پر اگر بال آ گئے ہوں ، تو عام حالت میں اس کے لئے یہ بال صاف کرانا مباح و جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ کام اگر شوہر کے لئے زینت کی نیت سے ہوتو جائز ہونے کے ساتھ ساتھ مستحب بھی ہے ، کیونکہ عورت کو شوہر کے لئے زینت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور چہرے پر بالوں کا ہونا شوہر کے لئے باعث نفرت و وحشت اور خلاف زینت ہے۔

   البتہ ابروبنوانا اس حکم سے مستثنی ہےکہ صرف خوبصورتی و زینت کےلئے ابرو کے بال نوچنا اوراسے بنوانا ،ناجائز ہے ،حدیث پاک میں ابرو بنوانے والی عورت کے بارے میں لعنت آئی ہے ، لہذا آجکل عورتوں میں ابرو بنوانے کا جو رواج چل پڑا ہے،یہ ناجائز ہے،اس سے ان کو باز آنا چاہیے، ہاں اس میں جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ ابرو کے بال بہت زیادہ بڑھ چکے ہوں،بھدے(برے) معلوم ہوتے ہوں توصرف ان بڑھے ہوئے بالوں کو تراش کر اتنا چھوٹا کرسکتے ہیں کہ بھدا پن دور ہوجائے  ، اس میں حرج نہیں۔

   صحیح مسلم میں ہے:’’عن عبداللہ قال:لعن اللہ الواشمات والمستوشمات والنامصات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغیرات خلق اللہ‘‘حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے،انہوں نے فرمایا :اللہ تبارک و تعالی کی لعنت ہے گودنے والیوں پر اور گودوانے والیوں پر اور بال اکھیڑنےوالیوں پر اور اکھڑوانے والیوں پر اور حسن کے لئے کھڑکیاں کرانے والیوں پر جو اللہ کی خلقت کو بدلنے والیا ں ہیں۔(صحیح المسلم،ج2، ص205، مطبوعہ کراچی )

   مذکورہ بالا حدیث پاک کے الفاظ"بال اکھیڑنے والیاں"کی وضاحت کرتے ہوئے صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:’’یعنی جو عورت بھووں کےبال نوچ کر ابرو کو خوبصورت بناتی ہے اس پر لعنت ہے۔‘‘(بھار شریعت،ج3،ص595،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   رد المحتار میں ہے:’’فلو کان فی وجھھا شعر ینفر زوجھا عنھا بسببہ ففی تحریم ازالتہ بعد لأن الزینۃ للنساء مطلوبۃ للتحسین(الی ان قال) اذا نبت للمرأۃ لحیۃ أو شوارب فلا تحرم ازالتہ بل تستحب .و فی التاترخانیۃعن المضمرات:ولا بأس بأخذ الحاجبین و شعر وجھہ ما لم یشبہ المخنث اھ . ملخصا‘‘اگر عورت کے چہرے پر بال ہوں تو اس کے سبب سے شوہر کو بیوی سے نفرت ہوگی لہذا بالوں کے دور کرنے کو حرام قرار دینے میں دوری ہے کیونکہ عورتوں کے لئے زینت ،خوبصورتی کےلئے مطلوب (طلب کی گئی) ہے(یہاں تک کہ مزید فرمایا)جب عورت کی داڑھی یا مونچھیں نکل آئیں تو ان کو دور کرنا حرام نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اور تاترخانیہ میں مضمرات سے ہے:اور دونوں ابرو اور چہرے کے بال لینے (کاٹنے)میں کوئی حرج نہیں جب تک ہیجڑے سے مشابہت نہ ہو۔(رد المحتار،ج9،ص615،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:’’عورت کو داڑھی یا مونچھ کے بال نکل آئیں تو ان کا نوچنا جائز بلکہ مستحب ہے کہ کہیں اس کے شوہر کو اس سے نفرت نہ پیدا ہو۔‘‘                         (بھار شریعت،ج3،ص449،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   بہار شریعت میں ہے:’’گودنے والی اور گودوانے والی یا ریتی سے دانت ریت کر خوبصورت کرنے والی یا دوسری عورت کے دانت ریتنے والی یا موچنے (بال اکھاڑنے کے آلہ)سے ابرو کے بالوں کو نوچ کر خوبصورت بنانے والی اور جس نے دوسری کے بال نوچے ان سب پر حدیث میں لعنت آئی ہے۔‘‘(بھار شریعت،ج3،ص596،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم