Aurat Ka Pant Shirt Pehnna Kaisa Hai ?

عورت کا پینٹ شرٹ پہننا کیسا ہے ؟

مجیب:ابوحمزہ محمد حسان عطاری

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:10

تاریخ اجراء: 10ربیع الاول 1432ھ/14فروری2011ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں  علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ لڑکیاں  پینٹ شرٹ پہن سکتی ہیں  ؟بالکل جسم کے ساتھ ملی ہوئی اور دوسری وہ پینٹ شرٹ جو کھلی کھلی ہو دونوں  کے بارے میں  کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کو پینٹ شرٹ پہننے کی قطعا اجازت نہیں  ، چاہے پینٹ جسم سے چپکی ہوئی ہو یا کھلی ہو ، اس کی ممانعت کئی وجوہ سے ہے :ایک تو اس لئے کہ اس میں  مردوں  کی مشابہت ہے اور مردوں  سے مشابہت ممنوع ہے۔ امام بخاری اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالی علیہما سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ لعن اللہ المتشبھین من الرجال بالنساء والمتشبھات من النساء بالرجال ‘‘یعنی مردوں  میں  سے عورتوں  سے مشابہت اختیار کرنے والے اور عورتوں  میں  سے مردوں  سے مشابہت اختیار کرنے والی پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔)صحیح البخاری ، 10/333 ، رقم الحدیث 5886 ، جامع ترمذی 5، /98 ، رقم الحدیث2784 (

   حافظ ابو داؤدرضی اللہ تعالی عنہ، سیدنا ابن ابی ملیکہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں  ، وہ کہتے ہیں  :’’قیل لعائشۃ ان امرأۃ تلبس النعل فقالت لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم الرجلۃ من النساء ‘‘یعنی حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی بارگاہ میں  عرض کی گئی کہ ایک عورت مردانی وضع کی جوتی پہنتی ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ رسول اکرم نور مجسم شاہ بنی آدم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے مردانی وضع اختیار کرنے والی عورت پر لعنت فرمائی ۔  (ابو داؤد 4/4099 مطبوعہ بیروت)

   علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس حدیث کے لفظ ’’الرجلۃ ‘‘کی تشریح میں  لکھتے ہیں  :’’التی تشبہ بالرجال فی زیھم او مشیھم او رفع صوتھم او غیر ذلک‘‘یعنی اس عورت پر لعنت فرمائی جو مردوں  سے ان کے طریقہ ، ان کے چلنے ، آواز بلند کرنے اور اس کی مثل دیگر باتوں  میں  مشابہت اختیار کرے ۔)فیض القدیر10/4991 مطبوعہ مکۃ المکرمہ (

   حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس کی شرح میں  لکھتے ہیں  :’’ تلبس النعل التی تختص بالرجال ‘‘یعنی وہ عورت ایسی جوتی پہنتی تھی جو مردوں  کے ساتھ خاص ہے۔)مرقاۃ المفاتیح 8/246 مطبوعہ کوئٹہ(

   علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں  :’’ یحرم علی الرجل التشبہ بالنساء وعکسہ فی لباس اختص بہ المشبہ‘‘یعنی مرد وعورت کا ایک دوسرے کے ایسے لباس میں  مشابہت اختیار کرنا ممنوع ہے جو دوسرے کے ساتھ خاص ہو۔(فیض القدیر10/4991 مطبوعہ مکۃ المکرمہ)

   اس میں  ممانعت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسے لباس کا پہننا فاسقہ عورتوں  کا طریقہ کار ہے  اور انہی کے ساتھ خاص ہے اور لباس کے بارے میں  یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ وہ لباس جو فاسقوں  کے ساتھ خاص ہو اس کا پہننا ممنوع ہے ۔ اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ تعالی لباس کے بارے میں  تیسرا قاعدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں  :’’ سوم لحاظ وضع کہ نہ زی کفار باشد نہ طرق فساق (یعنی ) تیسری بات جس کا لحاظ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ وہ لباس کفار اور فساق کے طریقہ پر نہ ہو ۔‘‘   (فتاوی رضویہ 22/190 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن)

   اس طرح کا لباس پہننے میں  تیسری قباحت یہ ہے کہ اس عورت کی پنڈلی وغیرہ کی مکمل ہیئت ظاہر ہوگی اور یہ بھی ممنوع ہے ۔اعلی حضرت امام اہلسنت رضی اللہ تعالی عنہ لکھتے ہیں  :’’ یونہی تنگ پائچے بھی نہ چوڑی دار ہوں  نہ ٹخنوں  سے نیچے ، نہ خوب چست بدن سے سلے ،کہ یہ سب وضع فساق ہے اور ساتر عورت کا ایسا چست ہونا کہ عضو کا پورا انداز بتائے یہ بھی ایک طرح کی بے ستری ہے ، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے جو پیشگوئی فرمائی کہ نساء کاسیات عاریات ہوں  گی کپڑے پہنے ننگیاں  ، اس کی وجوہ تفسیر میں  سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کپڑے ایسے تنگ ہوں  گے کہ بدن کی گولائی فربہی انداز اوپر سے بتائیں  گے جیسے کہ بعض لکھنؤ والیوں  کی تنگ شلواریں  چست کُرتیاں  ۔‘‘(فتاوی رضویہ 22/163,162 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم