Aurat Ka Tang Pajama(Tights) Pehen Kar Bahir Jana Kaisa ?

عورت کا تنگ پاجامہ پہن کے باہر جانا کیسا ؟

مجیب: ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری

فتوی نمبر: WAT-1302

تاریخ اجراء:       07جمادی الاولیٰ1444 ھ/02دسمبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   عورت کا تنگ پاجامہ باہر پہن کے جانے کا حکم کیا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کا ایسا چست لباس پہن کر گھر سے باہر نکلنایا غیر محرم کےسامنے آنا کہ جس سے اس کے اعضاکی ہیئت واضح ہو ،ناجائز و حرام،گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے کیونکہ یہ لباس پردہ نہیں بلکہ   اس میں ایک طرح کی بے پردگی ہے اور ایک تشریح کے مطابق ایسا لباس پہننے والی عورتوں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھیں گی ۔

   حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’صنفان من اهل النار لم ارهما: نساء كاسيات،عاريات، مميلات،مائلات، رءوسهن كاسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وان ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا‘‘ترجمہ:دوزخیوں کی دو جماعتیں ایسی ہیں،جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں) نہیں دیکھا۔(میرے بعد والے زمانے میں ہوں گی ۔ایک جماعت )ایسی عورتوں کی ہوگی جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی،لیکن حقیقت میں بے لباس اور ننگی ہوں گی ،بے حیائی کی طرف دوسروں کو مائل کرنے اور خود مائل ہونے والی ہوں گی،ان کے سر ایسے ہوں گے،جیسے بختی اونٹوں کی ڈھلکی ہو ئی کوہانیں ہوں،یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو سونگھیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے محسوس کی جائے گی۔(صحیح مسلم،باب النساء الکاسیات العاریات ، جلد 3 ، صفحہ 1680 ،دار احیاء التراث العربی،بیروت )

   مجدد دین وملت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں:’’نہ (لباس) خوب چست بدن سے سلے ،کہ یہ سب وضع فساق ہےاورساترِعورت کا ایسا چست ہونا کہ عضو کا پورا انداز بتائے،یہ بھی ایک طرح کی بے ستری ہے۔حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جو پیشگوئی فرمائی کہ نساء کا سیات عاریات ہوں گی ، کپڑے پہننے ننگیاں، اس کی وجوہ تفسیر سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کپڑے ایسے تنگ چست ہوں گے کہ بدن کی گولائی فربہی انداز اوپر سے بتائیں گے جیسے بعض لکھنؤ والیوں کی تنگ شلواریں چست کرتیاں۔

   ردالمحتارمیں ہے :" فی الذخیرۃ وغیرھا ان کان علی المراۃ ثیاب فلا باس ان یتامل جسدھا اذا لم تکن ثیابھا ملتزقۃ بھا بحیث تصف ماتحتہا وفی التتبیین قالوا ولا باس بالتأمل فی جسدھا وعلیہا ثیاب مالم یکن ثوب یبین حجمھا فلا ینظر الیہ حنیئذ لقولہ علیہ الصلٰوۃ واسلام من تامل خلف امرأۃ ورأی ثیابھا حتی تبین لہ حجم عظامھا لم یرح رائحۃ الجنۃ ولانہ متی کان یصف یکون ناظرا الی اعضائھااھ ملخصا۔"(ترجمہ:ذخیرہ وغیرہ میں ہے کہ اگر عورت نے لباس پہن رکھا ہو تو اس کے جسم کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ لباس اس قدر تنگ اور چست نہ ہو کہ اعضا کی ہیت بیان کرےے۔ التبیین میں ہے کہ ائمہ کرام نے فرمایا جب عورت لباس پہنے ہو تو اس کی طرف دیکھنے میں کچھ حرج نہیں بشرطیکہ لباس ایسا تنگ اور چست نہ ہوجواس کے حجم کو ظاہر کرنے لگے اگرایسی صورت حال ہو توپھر اس طرف نہ دیکھا جائے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشادگرامی کی وجہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ جس کسی نے عورت کو پیچھے سے دیکھا اوراس کے لباس پر نظر پڑی یہاں تک کہ اس کی ہڈیوں کا حجم واضح اور ظاہر ہوگیا تو ایسا شخص جنت کی خوشبو تک نہ پائیگا اور اس لئے کہ لباس  جس اعضا کی  ہیئت بیان کر رہا ہو تو اس لباس کو دیکھنا مخفی اعضاء کو دیکھنے کے مترادف ہے۔ اھ تلخیص شدہ) ‘‘ (فتاوی رضویہ،ج22،ت162تا163،مطبوعہ،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

    مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں :" اس کے کپڑے چست نہ ہوں اور اگر چست کپڑے پہنے ہوں کہ جسم کا نقشہ کھنچ جاتا ہو مثلاً چست پائجامہ میں پنڈلی اور ران کی پوری ہیئت نظر آتی ہے تو اس صورت میں نظر کرنا ناجائز ہے۔ ۔۔۔۔ اور ایسے موقع پر ان کو اس قسم کے کپڑے پہننا بھی ناجائز" (بہار شریعت،ج3،حصہ16، ص448، مطبوعہ،مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم